Saturday, 26 November 2016

صبا خمار تھی موسم شراب ایسا تھا

صبا خمار تھی، موسم شراب ایسا تھا
بدن کی شاخ پہ چہرہ گلاب ایسا تھا
اک اضطراب سا لفظوں کی کائنات میں تھا
تہِ خیال کہیں پیچ و تاب ایسا تھا
سحر تھی سادہ ورق، آفتاب کاتب تھا
ظہورِ عالمِ امکاں، کتاب ایسا تھا
تھی خشک پتوں کی آواز ہمرکاب اس کی
کہ خود ہوا ہی میں کچھ اضطراب ایسا تھا
کھلی جو آنکھ، تو دشتِ خیال تھا ہر سُو
پھر اس کے بعد سفر سارا خواب جیسا تھا

وزیر آغا 

No comments:

Post a Comment