وہی لڑکی
بھوری آنکھوں والی لڑکی
تجھ سے پہلے میرے پاس بھی آتی تھی
اپنے گھر کی اک اک بات سناتی تھی
مہندی اور وسمے سے عاری کالے بالوں والی امی
جلتے چراغوں جیسے آنکھوں والی بہنوں
ان کے سنگتروں کی پھانکوں جیسے ہونٹوں
دودھ کے پیالوں جیسے اجلے گالوں
روشن جسموں
سرو قدوں کے قصے سنایا کرتی تھی
میرے گھر میں وہ خورشید کی صورت روز ابھرتی تھی
مجھ سے میری نظمیں گیت اور غزلیں سنتی رہتی تھی
سوئیٹر بنتی رہتی تھی
اکثر میری غزلیں گا کر مجھے سنایا کرتی تھی
چھایا کی رسیا تھی وہ اور چھایا رچایا کرتی تھی
ٹک ٹک دیکھا کرتی تھی
ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی
ایسا ظاہر کرتی تھی
جیسے مجھ پر مرتی تھی
لانبی پلکوں والی لڑکی
مجھ سے پہلے ایک ستار نواز کے پاس بھی جاتی تھی
اس کے رسیلے نغموں پر ناگن کی طرح لہراتی تھی
اس کی تانوں اور پلٹوں پر دھواں دھواں ہو جاتی تھی
مینڈھ جدھر لے جاتی تھی اس سمت رواں ہو جاتی تھی
گیت کے لے بڑھتے ہی تند بگولہ بن جاتی تھی
تکتے تکتے گویا ایک ہیولیٰ سا بن جاتی تھی
سم پر دائیاں پاؤں زمیں پر مار کے وہ رک جاتی تھی
رک کر یوں لہرا کر گرتی
جیسے کوئی کانچ کا پیالہ
ہاتھ سے چھوٹے
چھن سے ٹوٹے
گر کر اٹھتی
اٹھ کر یوں جھک جاتی تھی
جیسے کوئی بن باسی دیوی
کرموں کا پھل بھوگ چکی ہو
دیوتا کے چرنوں میں جھکی ہو
مستی میں ڈگ بھرنے والی
سنبھل سنبھل پگ بھرتی تھی
ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی
ایسا ظاہر کرتی تھی
جیسے اس پر مرتی تھی
تکتے ہی تکتے وہ ایک ہیولیٰ سا بن جاتی تھی
اس کے رسیلے نغموں پر ناگن کی طرح لہراتی تھی
لمبی چوٹی والی لڑکی سب کو دھوکا دیتی ہے
موسیقی کی رسیا موسیقاروں کو ڈس لیتی ہے
بھوری آنکھوں والی لڑکی
تجھ سے پہلے میرے پاس بھی آتی تھی
اپنے گھر کی اک اک بات سناتی تھی
مہندی اور وسمے سے عاری کالے بالوں والی امی
جلتے چراغوں جیسے آنکھوں والی بہنوں
ان کے سنگتروں کی پھانکوں جیسے ہونٹوں
دودھ کے پیالوں جیسے اجلے گالوں
روشن جسموں
سرو قدوں کے قصے سنایا کرتی تھی
میرے گھر میں وہ خورشید کی صورت روز ابھرتی تھی
مجھ سے میری نظمیں گیت اور غزلیں سنتی رہتی تھی
سوئیٹر بنتی رہتی تھی
اکثر میری غزلیں گا کر مجھے سنایا کرتی تھی
چھایا کی رسیا تھی وہ اور چھایا رچایا کرتی تھی
ٹک ٹک دیکھا کرتی تھی
ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی
ایسا ظاہر کرتی تھی
جیسے مجھ پر مرتی تھی
لانبی پلکوں والی لڑکی
مجھ سے پہلے ایک ستار نواز کے پاس بھی جاتی تھی
اس کے رسیلے نغموں پر ناگن کی طرح لہراتی تھی
اس کی تانوں اور پلٹوں پر دھواں دھواں ہو جاتی تھی
مینڈھ جدھر لے جاتی تھی اس سمت رواں ہو جاتی تھی
گیت کے لے بڑھتے ہی تند بگولہ بن جاتی تھی
تکتے تکتے گویا ایک ہیولیٰ سا بن جاتی تھی
سم پر دائیاں پاؤں زمیں پر مار کے وہ رک جاتی تھی
رک کر یوں لہرا کر گرتی
جیسے کوئی کانچ کا پیالہ
ہاتھ سے چھوٹے
چھن سے ٹوٹے
گر کر اٹھتی
اٹھ کر یوں جھک جاتی تھی
جیسے کوئی بن باسی دیوی
کرموں کا پھل بھوگ چکی ہو
دیوتا کے چرنوں میں جھکی ہو
مستی میں ڈگ بھرنے والی
سنبھل سنبھل پگ بھرتی تھی
ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی
ایسا ظاہر کرتی تھی
جیسے اس پر مرتی تھی
تکتے ہی تکتے وہ ایک ہیولیٰ سا بن جاتی تھی
اس کے رسیلے نغموں پر ناگن کی طرح لہراتی تھی
لمبی چوٹی والی لڑکی سب کو دھوکا دیتی ہے
موسیقی کی رسیا موسیقاروں کو ڈس لیتی ہے
خاطر غزنوی
No comments:
Post a Comment