Saturday 26 November 2016

وہی لڑکی بھوری آنکھوں والی

وہی لڑکی
بھوری آنکھوں والی لڑکی
تجھ سے پہلے میرے پاس بھی آتی تھی
اپنے گھر کی اک اک بات سناتی تھی
مہندی اور وسمے سے عاری کالے بالوں والی امی
جلتے چراغوں جیسے آنکھوں والی بہنوں
ان کے سنگتروں کی پھانکوں جیسے ہونٹوں
دودھ کے پیالوں جیسے اجلے گالوں
روشن جسموں
سرو قدوں کے قصے سنایا کرتی تھی
میرے گھر میں وہ خورشید کی صورت روز ابھرتی تھی
مجھ سے میری نظمیں گیت اور غزلیں سنتی رہتی تھی
سوئیٹر بنتی رہتی تھی
اکثر میری غزلیں گا کر مجھے سنایا کرتی تھی
چھایا کی رسیا تھی وہ اور چھایا رچایا کرتی تھی
ٹک ٹک دیکھا کرتی تھی
ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی
ایسا ظاہر کرتی تھی
جیسے مجھ پر مرتی تھی
لانبی پلکوں والی لڑکی
مجھ سے پہلے ایک ستار نواز کے پاس بھی جاتی تھی
اس کے رسیلے نغموں پر ناگن کی طرح لہراتی تھی
اس کی تانوں اور پلٹوں پر دھواں دھواں ہو جاتی تھی
مینڈھ جدھر لے جاتی تھی اس سمت رواں ہو جاتی تھی
گیت کے لے بڑھتے ہی تند بگولہ بن جاتی تھی
تکتے تکتے گویا ایک ہیولیٰ سا بن جاتی تھی
سم پر دائیاں پاؤں زمیں پر مار کے وہ رک جاتی تھی
رک کر یوں لہرا کر گرتی
جیسے کوئی کانچ کا پیالہ
ہاتھ سے چھوٹے
چھن سے ٹوٹے
گر کر اٹھتی
اٹھ کر یوں جھک جاتی تھی
جیسے کوئی بن باسی دیوی
کرموں کا پھل بھوگ چکی ہو
دیوتا کے چرنوں میں جھکی ہو
مستی میں ڈگ بھرنے والی
سنبھل سنبھل پگ بھرتی تھی
ٹھنڈی آہیں بھرتی تھی
ایسا ظاہر کرتی تھی
جیسے اس پر مرتی تھی
تکتے ہی تکتے وہ ایک ہیولیٰ سا بن جاتی تھی
اس کے رسیلے نغموں پر ناگن کی طرح لہراتی تھی
لمبی چوٹی والی لڑکی سب کو دھوکا دیتی ہے
موسیقی کی رسیا موسیقاروں کو ڈس لیتی ہے

خاطر غزنوی

No comments:

Post a Comment