انساں ہوں گھِر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں کے روپ میں
ہم نے بھی دن گزارے درختوں کی چھاؤں میں
دوڑا رگوں میں خوں کی طرح شور شہر کا
یوں تو رواں ہیں میرے تعاقب میں منزلیں
لیکن میں ٹھوکروں کو لپیٹے ہوں پاؤں میں
وہ آ کے چل دئیے میں خیالوں میں گم رہا
قدموں کی چاپ دب گئی دل کی صداؤں میں
سر رکھ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں
ایک ایک کر کے لوگ نکل آئے دھوپ میں
جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں
صحرا کی پیاس لے کے چلا جن کے ساتھ ساتھ
پانی کی ایک بوند نہ تھی ان گھٹاؤں میں
جلتے گلاب میں نہ ذرا سی بھی آنچ تھی
ہم تو جلے ہیں ہجر کی ٹھنڈی خزاؤں میں
خاطر غزنوی
No comments:
Post a Comment