دھوپ میں نکلو، گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے، کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
وہ ستارا ہے چمکنے دو یونہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے، اسے جسم بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے، دل ہوتے ہیں
فاصلہ نظروں کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے، ہاتھ بڑھا کر تو دیکھو
ندا فاضلی
No comments:
Post a Comment