Wednesday 30 November 2016

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو

دھوپ میں نکلو، گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے، کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
وہ ستارا ہے چمکنے دو یونہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے، اسے جسم بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے، دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر تو دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے، ہاتھ بڑھا کر تو دیکھو

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment