اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا
فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ، تو بکھرنا ہی پڑے گا
پڑتی ہے تو پڑ جاۓ شِکن اس کی جبِیں پر
ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے
خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا
میں سوچ رہا ہوں یہ سرِ شہرِ نگاراں
یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا
اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے
حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا
اِک عمر سے بے نور ہے یہ محفلِ ہستی
اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا
اعجاز رحمانی
No comments:
Post a Comment