Tuesday 29 November 2016

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا
سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا
فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے
خوشبو ہے اگر وہ، تو بکھرنا ہی پڑے گا
پڑتی ہے تو پڑ جاۓ شِکن اس کی جبِیں پر
سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا
ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے
خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا
میں سوچ رہا ہوں یہ سرِ شہرِ نگاراں
یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا
اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے
حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا
اِک عمر سے بے نور ہے یہ محفلِ ہستی
اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا

اعجاز رحمانی

No comments:

Post a Comment