Tuesday 29 November 2016

جانے کیا سوچ کر بنا لیا ہے

جانے کیا سوچ کر بنا لیا ہے
خیر کو ہم نے شر بنا لیا ہے
صحن کے بیچ کھینچ دی ہے لکیر 
گھر کے اندر ہی گھر بنا لیا ہے
مستقل خواب ڈھونے والوں نے 
نیند کو رہگزر بنا لیا ہے
ہجر اک عام واقعہ تھا، مگر 
سب نے اس کو خبر بنا لیا ہے
ہو رہا ہے گمان جنگل کا 
آئینے پر شجر بنا لیا ہے
اتفاقاً ہوا تھا عشق، مگر 
میں نے اس کو ہنر بنا لیا ہے
اشک رکتے نہیں کسی لمحے 
کیا پسِ چشمِ تر بنا لیا ہے
وہ اکیلا رہے گا جس نے بھی 
سائے کو ہمسفر بنا لیا ہے
رات کا ساتھ دینے والوں نے 
دن بہت مختصر بنا لیا ہے
گھر میں دے دی پناہ خوشبو کو 
پھول دیوار پر بنا لیا ہے

اعجاز توکل

No comments:

Post a Comment