جانے کیا سوچ کر بنا لیا ہے
خیر کو ہم نے شر بنا لیا ہے
صحن کے بیچ کھینچ دی ہے لکیر
گھر کے اندر ہی گھر بنا لیا ہے
مستقل خواب ڈھونے والوں نے
ہجر اک عام واقعہ تھا، مگر
سب نے اس کو خبر بنا لیا ہے
ہو رہا ہے گمان جنگل کا
آئینے پر شجر بنا لیا ہے
اتفاقاً ہوا تھا عشق، مگر
میں نے اس کو ہنر بنا لیا ہے
اشک رکتے نہیں کسی لمحے
کیا پسِ چشمِ تر بنا لیا ہے
وہ اکیلا رہے گا جس نے بھی
سائے کو ہمسفر بنا لیا ہے
رات کا ساتھ دینے والوں نے
دن بہت مختصر بنا لیا ہے
گھر میں دے دی پناہ خوشبو کو
پھول دیوار پر بنا لیا ہے
اعجاز توکل
No comments:
Post a Comment