Tuesday 29 November 2016

کفن بدوش ہم اپنے گھروں میں رہتے ہیں

کفن بدوش ہم اپنے گھروں میں رہتے ہیں
بے قید زیست اور مقبروں میں رہتے ہیں
جنہیں قریب سے سورج نظر نہیں آتا
وہ کم نگاہ بھی دیدہ وروں میں رہتے ہیں
یہاں زمیں کے تاجر تو ہیں بہت سے مگر
وطن فروش بھی سوداگروں میں رہتے ہیں
کبھی خلوص محبت کے پھول کھلتے تھے
اب اختلاف کے موسم گھروں میں رہتے ہیں
ہمارا رشتہ ہے قائم زمیں کی گردش سے
سفال جان لیے کوزہ گروں میں رہتے ہیں
ہم اپنے عہد کے موسیٰ نہیں مگر اے جان
کمال یہ ہے کہ جادوگروں میں رہتے ہیں

اعجاز رحمانی

No comments:

Post a Comment