کفن بدوش ہم اپنے گھروں میں رہتے ہیں
بے قید زیست اور مقبروں میں رہتے ہیں
جنہیں قریب سے سورج نظر نہیں آتا
وہ کم نگاہ بھی دیدہ وروں میں رہتے ہیں
یہاں زمیں کے تاجر تو ہیں بہت سے مگر
کبھی خلوص محبت کے پھول کھلتے تھے
اب اختلاف کے موسم گھروں میں رہتے ہیں
ہمارا رشتہ ہے قائم زمیں کی گردش سے
سفال جان لیے کوزہ گروں میں رہتے ہیں
ہم اپنے عہد کے موسیٰ نہیں مگر اے جان
کمال یہ ہے کہ جادوگروں میں رہتے ہیں
اعجاز رحمانی
No comments:
Post a Comment