یہ کھڑکیاں تھیں یہ دیوار تھی یہاں در تھا
اسی زمین پہ یارو! کبھی میرا گھر تھا
درونِ دل کوئی ویرانہ بس گیا ہو گا
وگرنہ باغ میں ایسا نہ کوئی منظر تھا
میں خود کو سنگِ درِ دوست بھی سمجھ بیٹھا
یہ لوگ مجھ کو ہٹا کر ہوئے ہیں خوش کیا کیا
کہ جیسے میں ہی تِرے راستے کا پتھر تھا
غموں کے پاس سوا درد کے نہ تھا کچھ بھی
امید تھی کہ تہی دست میں، سمندر تھا
متینؔ وہ بھی اسی راستے سے گزرا ہے
متینؔ میں بھی اسی راستے کی ٹھوکر تھا
اقبال متین
No comments:
Post a Comment