وفا کی جنگ مت کرنا کہ یہ بیکار جاتی ہے
زمانہ جیت جاتا ہے، محبت ہار جاتی ہے
ہمارا تذکرہ چھوڑو، ہم ایسے لوگ ہیں جن کو
نفرت کچھ نہیں کہتی، محبت مار جاتی ہے
چلی آتی ہے یہ جانے کس گلی سے شبِ ہجراں
نجانے کون سی منزل ہے آخر زندگی تیری
نجانے کس طرف یہ راہِ دشوار جاتی ہے
میں آ کے بیٹھ سکتا ہوں تمہاری بزم میں، لیکن
تمہارے پاؤں چھونے سے میری دستار جاتی ہے
کچھ ایسے زلزلوں کی زد میں آیا ہے مکاں ناسکؔ
میں چھت کو تھامنے لگتا ہوں تو دیوار جاتی ہے
اطہر ناسک
No comments:
Post a Comment