Wednesday 30 November 2016

بکھرے ہوئے سامان میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں

بکھرے ہوئے سامان میں کیا ڈھونڈ رہا ہوں 
جو تم نے دیا عہدِ وفا ڈھونڈ رہا ہوں
ملتا ہی نہیں باد اڑا لے گئی سب کچھ 
اب بعد میں یہ کس کی ادا ڈھونڈ رہا ہوں
بس ایک مہک تیرے بدن کی رہی باقی 
شاید اسی خوشبو کو سدا ڈھونڈ رہا ہوں
تھی سانس میں حدت جو تِری ختم ہوئی ہے 
میں شہر کی گلیوں میں ردا ڈھونڈ رہا ہوں
انورؔ نہ بھلا پاؤ گے تم عہدِ فسوں کو 
میں خواب میں اب بندِ قبا ڈھونڈ رہا ہوں 

انور زاہدی

No comments:

Post a Comment