Tuesday 29 November 2016

شعاع مہر سے خیرہ ہوئی نظر دیکھا

شعاعِ مہر سے خِیرہ ہوئی نظر دیکھا
نہ راس آیا ہمیں جلوۂ سحر، دیکھا 
خوشی سے غم کو کچھ اتنا قرِیب تر دیکھا 
جہاں تھی دھوپ وہیں سایۂ شجر دیکھا
جلا کے سوئے تھے اہلِ وفا، چراغِ وفا
کھلی جو آنکھ، اندھیرا شباب پر دیکھا
خزاں میں گائے تھے جس نے بہار کے نغمے
اسے بہار میں محرومِ بال و پر دیکھا
دعائیں مانگی تھیں ہم نے بہار کی، لیکن 
بہار آتے ہی بربادیوں نے گھر دیکھا
وہی جو رشکِ گلستاں تھے کل گلستاں میں
انہیں گلوں کو اگلتے ہوئے شرر دیکھا

اعجاز رحمانی

No comments:

Post a Comment