وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست ملاقات کو زمانہ ہوا
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بلاوا تو اک بہانہ ہوا
خدا کرے تِری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا ملنا تو اَب فسانہ ہوا
میں سوچتی ہوں کہ مجھ میں کمی تھی کس شے کی
کہ سب کا ہو کے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہوا
کِسے بلاتی ہیں آنگن کی چمپئ شامیں
کہ وہ اب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہوا
دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اور اب یہ دکھ ، کہ پہن کر کِسے دِکھانا ہوا
میں اپنے کانوں میں بیلے کے پھول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کس کو مجھے بلانا ہوا
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment