پھر ایک بار تجھی سے سوال کرنا ہے
نگاہ میں تیرا منصب بحال کرنا ہے
لہو سے سینچ دیا اور پھر یہ طے پایا
اسی گلاب کو اب پائمال کرنا ہے
اس ایک مرہمِ نو روز و لمسِ تازہ سے
یہ غم ہے اور ملا ہے کسی کے در سے ہمیں
سو اس شجر کی بہت دیکھ بھال کرنا ہے
بھلا کے وہ ہمیں حیران ہے تو کیا کہ ابھی
اسی طرح کا ہمیں بھی کمال کرنا ہے
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment