Friday 25 November 2016

پھر ایک بار تجھی سے سوال کرنا ہے

پھر ایک بار تجھی سے سوال کرنا ہے
نگاہ میں تیرا منصب بحال کرنا ہے
لہو سے سینچ دیا اور پھر یہ طے پایا
اسی گلاب کو اب پائمال کرنا ہے
اس ایک مرہمِ نو روز و لمسِ تازہ سے
پرانے زخموں کا بھی اِندمال کرنا ہے
یہ غم ہے اور ملا ہے کسی کے در سے ہمیں
سو اس شجر کی بہت دیکھ بھال کرنا ہے
بھلا کے وہ ہمیں حیران ہے تو کیا کہ ابھی
اسی طرح کا ہمیں بھی کمال کرنا ہے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment