شریک محفل دار و رسن کچھ اور بھی ہیں
ستم گرو! ابھی اہلِ کفن کچھ اور بھی ہیں
رواں رواں یونہی اے ننھی بوندیوں کے ابر
کہ اس دیار میں اجڑے چمن کچھ اور بھی ہیں
خدا کرے نہ تھکیں حشر تک جنوں کے پاؤں
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں
ابھی تو ہیں دلِ شاعر میں سینکڑوں ناسور
ابھی تو معجزہ ہاۓ سخن کچھ اور بھی ہیں
دلِ گداز نے آنکھوں کے دے دیئے آنسو
یہ جانتے ہوئے غم کے چلن کچھ اور بھی ہیں
معین احسن جذبی
No comments:
Post a Comment