ہم ایک خواب لیے ماہ و سال سے گزرے
ہزاروں رنج، ہزاروں ملال سے گزرے
ہمیں ملا جو کوئی آسماں تو صورتِ ماہ
نہ جانے کتنے عروج و زوال سے گزرے
کبھی غریبوں کی آہوں میں کی بسر ہم نے
وہ بے سہارا سے کچھ لوگ جان سے بیزار
خبر ملی ہے کہ اوجِ کمال سے گزرے
یہ زندگی بھی عجیب راہ تھی کہ ہم جس سے
قدم بڑھاتے، جھجکتے، نڈھال سے گزرے
حقیقتیں تو نگاہوں کے سامنے تھیں، مگر
ہم ایک عمر فریبِ خیال سے گزرے
حکایتِ گل و بلبل پہ خندہ زن ہیں وہی
جو شامِ ہجر نہ صبحِ وصال سے گزرے
گلے لگاتی ہے منزل انہیں بھی اے جذبیؔ
قدم قدم پہ جو خوفِ مآل سے گزرے
معین احسن جذبی
No comments:
Post a Comment