سفر کا دوسرا مرحلہ
چلی کب ہوا، کب مٹا نقش پا
کب گری ریت کی وہ ردا
جس میں چھپتے ہوئے تُو نے مجھ سے کہا؛
آگے بڑھ، آگے بڑھتا ہی جا
کوئی چہرہ، کوئی چاپ، ماضی کی کوئی صدا،۔ کچھ نہیں اب
اے گلے کے تنہا محافظ! تِرا اب محافظ خدا
میرے ہونٹوں پہ کف
میرے رعشہ زدہ بازوؤں سے لٹکتی ہوئی گوشت کی دھجیاں
اور لاکھوں برس کا بڑھاپا
جو مجھ میں سما کر ہمکنے لگا
مجھ کو ماضی سے کٹنے کا کچھ ڈر نہیں
اپنے ہمزاد کو روبرو پا کے میں غمزدہ بھی نہیں
یہ عصا، جھکتے شانوں پہ کالی عبا اور گلّے کے چلنے کی پیہم صدا
اب یہی میری قسمت، یہی آسرا
وزیر آغا
No comments:
Post a Comment