Wednesday, 23 November 2016

جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے

جب اک سراب میں پیاسوں کو پیاس اتارتی ہے
مِرے یقیں کو قرین قیاس اتارتی ہے
ہمارے شہر کی یہ وحشیانہ آب و ہوا
ہر ایک روح میں جنگل کی باس اتارتی ہے
یہ زندگی تو لبھانے لگی ہمیں ایسے
کہ جیسے کوئی حسینہ لباس اتارتی ہے
میں سیخ پا ہوں بہت زندگی کی گاڑی پر
یہ روز شام مجھے گھر کے پاس اتارتی ہے
تمہارے آنے کی افواہ بھی سر آنکھوں پر
یہ بام و در سے اداسی کی گھاس اتارتی ہے
ہمارا جسم سکوں چاہتا ہے اور یہ رات
تھکن اتارنے آتی ہے،۔ ماس اتارتی ہے

افضل خان

No comments:

Post a Comment