زندانِ یاس ہی میں مقدر پڑا رہا
برسوں سے تھا جہاں وہیں پتھر پڑا رہا
تحلیل ہو کے جسم ہواؤں میں اڑ گئے
پھیلا ہوا زمین پہ بستر پڑا رہا
کس دل میں آرزوؤں نے خیمے کئے تھے نصب
اک خلوتئ شہرِ خموشاں تھا وہ کہ میں
اوڑھے ہوئے جو خاک کی چادر پڑا رہا
محسنؔ وہ ساتھ لے گئے ہر منظرِ حیات
ٹوٹا ہوا سا دل پسِ منظر پڑا رہا
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment