میری طرح رات کو غزلیں کہا کرو
تنہائیوں میں آپ سے باتیں کیا کرو
جتنا بھی دل ہو چاک سویرے سے شام تک
تارِ نفس سے رات گئے سی لیا کرو
دیوار و در کے بیچ ہی گھٹ گھٹ کے رہ نہ جاؤ
کیا جا کے پتھروں کو سناؤ گے اپنی بات
جو بات بھی ہو خود سے ہی کہہ سن لیا کرو
بے چہرگی کے دشت میں پہچان کیا بتاؤں
جیسے ملے ہوا سے ہوا، آ ملا کرو
یا پھینک دو اتار کے شیشے کا پیرہن
یا پتھروں سے سوچ سمجھ کے ملا کرو
محسنؔ کبھی جو لفظوں سے اڑنے لگیں شرار
کچھ شعلۂ خیال کو نَم کر لیا کرو
محسن زیدی
No comments:
Post a Comment