Saturday, 12 November 2016

میری طرح رات کو غزلیں کہا کرو

میری طرح رات کو غزلیں کہا کرو
تنہائیوں میں آپ سے باتیں کیا کرو
جتنا بھی دل ہو چاک سویرے سے شام تک
تارِ نفس سے رات گئے سی لیا کرو
دیوار و در کے بیچ ہی گھٹ گھٹ کے رہ نہ جاؤ
گھر سے نکل کے دشت میں گھوما پھرا کرو
کیا جا کے پتھروں کو سناؤ گے اپنی بات
جو بات بھی ہو خود سے ہی کہہ سن لیا کرو
بے چہرگی کے دشت میں پہچان کیا بتاؤں
جیسے ملے ہوا سے ہوا، آ ملا کرو
یا پھینک دو اتار کے شیشے کا پیرہن
یا پتھروں سے سوچ سمجھ کے ملا کرو
محسنؔ کبھی جو لفظوں سے اڑنے لگیں شرار
کچھ شعلۂ خیال کو نَم کر لیا کرو

محسن زیدی

No comments:

Post a Comment