دِلا! ٹھہر ذرا، یوں عجلتوں سے کام نہ لے
مگر میں یہ نہیں کہتا کہ؛ انتقام نہ لے
پلک پہ بیٹھنا آیا نہ دل پہ چلنا جسے
ہمارے سامنے اس کج روِش کا نام نہ لے
امام پیچھے ہی ہوتا ہے مُقتدی کا جواز
سو دستِ ساقی بِنا کوئی رِند جام نہ لے
وہ بھیڑ میں چلے تو دل کی دھڑکنیں رک جائیں
کوئی دیوانہ کہیں اس کا ہاتھ تھام نہ لے
سبھی نے، دوست! خدا کو حساب دینا ہے
تُو اپنے ہاتھ میں کوئی بھی انتظام نہ لے
نگار خانۂ دل میں ہے ارتعاش بہت
جسے ہو ٹوٹنے کا ڈر وہ یہ مقام نہ لے
یہ لاشعور سے آگے کی کوئی دنیا ہے
ہماری سمت کوئی بھول کر بھی گام نہ لے
عثمان سکندر
No comments:
Post a Comment