Thursday, 18 August 2022

رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض

 رکھتے ہیں میرے اشک سے یہ دیدۂ تر فیض

دامن میں لیا اپنے ہے دریا نے گُہر فیض

پُر نُور عجب کیا ہے کرے مجھ کو کرم سے

رکھتی ہے دو عالم پہ تِری ایک نظر فیض

اک جام پہ بخشے ہے یہاں رتبہ جسم کو

کس کی نِگہِ مست سے رکھتا ہے خمر فیض

محروم نہیں کوئی تِرے خوانِ کرم سے

ہے حصر خدائی کا ہی تجھ پہ مگر فیض

چندا! رہے پرتو سے تِرے یا علی روشن

خورشید کو ہے در سے تِرے شام و سحر فیض


ماہ لقا چندا

No comments:

Post a Comment