Thursday, 18 August 2022

نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں، نہ کوئی قریب کی بات ہے

جسے چاہے اس کو نواز دے، یہ درِ حبیبؐ کی بات ہے

جسے چاہا در پہ بلا لیا،۔۔ جسے چاہا اپنا بنا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے

وہ بھٹک کے راہ میں رہ گئی، یہ مچل کے در سے لپٹ گئی

وہ کسی امیر کی شان تھی، یہ کسی غریب کی بات ہے

وہ خدا نہیں، بخدا نہیں، وہ مگر خدا سے جدا نہیں

وہ ہیں کیا مگر وہ ہیں کیا نہیں، یہ محب حبیب کی بات ہے

تِرے حسن سے تِری شان تک ہے نگاہ و عقل کا فاصلہ

یہ ذرا بعید کا ذکر ہے،۔ وہ ذرا قریب کی بات ہے

میں بُروں سے لاکھ بُرا سہی مگر ان سے ہے مِرا واسطہ

مِری لاج رکھ لے مِرے خدا!، یہ تِرے حبیبؐ کی بات ہے

تجھے اے منورِ بے نوا درِ شہؐ سے چاہیے اور کیا

جو نصیب ہو کبھی سامنا تو بڑے نصیب کی بات ہے


منور بدایونی

No comments:

Post a Comment