کس طرف جائے گا پھر اور کدھر نکلے گا
تِری محفل سے وہ بدبخت اگر نکلے گا
ہم کو معلوم ہے دیوار سے کیا کہنا ہے
ہم جو کہہ دیں گے تو دیوار سے در نکلے گا
پہلے تو شہر سجائے گا عدو میرے لیے
پھر بڑی شان سے نیزے پہ یہ سر نکلے گا
میں تِرے وصل کا پھر لطف اٹھا پاؤں گا
جب میرے دل سے تِرے ہجر کا ڈر نکلے گا
تیری آنکھوں کی یہ رنگت سے مجھے لگتا ہے
اشک نکلے گا جو وہ خون میں تر نکلے گا
مجھ کو تنہائی میں جینے کا ہنر آ گیا ہے
اب کے میں گھر سے نہیں مجھ سے یہ گھر نکلے گا
محسن علی جعفری
No comments:
Post a Comment