کچھ بھی سنتے ہی نہیں چھوڑ کے جانے والے
پیچھے رہ جاتے ہیں بس روگ کمانے والے
رب بھی رکھ لے گا تیرا پردہ بروزِ محشر
عیب اوروں کے زمانے سے چھپانے والے
اس کو بھاتی تھی غزل شوخ ہی جبکہ مجھ کو
شعر آتے تھے اداسی کو بڑھانے والے
کیا سمجھتے ہیں کہ خود ہنس کے گزاریں گے دن
خود بھی روٸیں گے یہ اوروں کو رلانے والے
آپ جتنے بھی بھلے پہرے بٹھا لیں اس پر
"دل تو ہر حال چراٸیں گے چرانے والے"
کچھ مِری اس لیے دنیا سے نہیں بن پاٸی
مجھ کو آئے نہیں انداز زمانے والے
نمل بلوچ
No comments:
Post a Comment