آپ دل کھول کر بے داد پہ بیداد کریں
اور ہم ضبط سے لیں کام نہ فریاد کریں
حشر میں اس کی نظر ہو گئی نیچی ہم سے
ہو سکے جن سے وہ اب شکوۂ جلاد کریں
کچھ تو فرمائیے انصاف اگر ہے کوئی چیز
آپ کو دل سے بُھلائیں تو کسے یاد کریں؟
دلِ بے تاب! سنبھلتا ہی نہیں سینے میں
ایک مظلوم کی اب آپ کچھ امداد کریں
آج اک قبر پہ عالم! یہ لکھا دیکھا تھا
ساکنِ گلشنِ ہستی نہ مجھے یاد کریں
عالم لکھنوی
No comments:
Post a Comment