رات بھی ہم نے رو رو کاٹی دن بھی سو کے خراب کیا
کھلنے والی آنکھوں کو بھی عمداً محوِ خواب کیا
ایک ہی روٹی کو دھو دھو کر پیتے رہے ہم شام و سحر
ساری عمر میں شاید ہم نے ایک ہی کارِ ثواب کیا
رزق تو ہے مقسوم ہمارا، اس کو دعا کی حاجت کیوں
ڈھانک کے چہرہ دستِ دعا سے ہم نے خود سے خطاب کیا
اس کی نظر سے تیر جو نکلا ٹھیک نشانے پر بیٹھا
گھائل آہو بن کر ہم نے بن بن کو شاداب کیا
اشک بہا دینے کے ہنر میں ثانی اس کا کوئی نہیں
اک دن ہنستے ہنستے اس نے سب کو تہِ سیلاب کیا
بچپن میں دیکھا تھا ہم نے ماں کا چہرہ یاد نہیں
بُوعلی سینا بن کر ہم نے اس کے رُخ کو کتاب کیا
کاوش بدری
No comments:
Post a Comment