رات پھر رات کے سناٹے میں وہ جان پڑی
کہ سنائی نہ دی آواز کوئی کان پڑی
تھک گیا خواب کہیں یاد کے صد راہے پر
رہ گئی بات کہیں جانبِ نسیان پڑی
رہ گیا راہ میں اک ہوش پریشان کھڑا
رہ گئی سوچ میں اک حیرتِ حیران پڑی
دل تھا آنکھوں میں سو آنکھیں تھیں انہی آنکھوں میں
تھی زباں سو تھی میانِ لب و دندان پڑی
جسے آنا تھا وہ آیا جسے جانا تھا گیا
رہگزر تکتی رہی راہ میں ویران پڑی
جس نے کہنا تھا کہا اور سنا جس نے سنا
تم رہے دیکھتے اب جنبشِ لب دھیان پڑی
عوِضِ یک سخنِ میر لُٹی میری غزل
قیمتِ مطلعِ کم اوروں کو دیوان پڑی
افتخار شفیع
No comments:
Post a Comment