Friday, 11 November 2016

یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے

یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے
کہاں ہم کو دماغ و دل رہا ہے
نہیں آتا کسی تکیے اوپر خواب
یہ سر پاؤں سے تیرے ہل رہا ہے
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی ایک شہر میں قاتل رہا ہے
گزر گئے دین و دنیا سے تس پر
تِرا گھر اور کئی منزل رہا ہے
غنیمت جان قاتلِ جانِ مظہرؔ
یہ مقتولوں میں ٹک بسمل رہا ہے

مرزا مظہر جان جاناں

No comments:

Post a Comment