یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے
کہاں ہم کو دماغ و دل رہا ہے
نہیں آتا کسی تکیے اوپر خواب
یہ سر پاؤں سے تیرے ہل رہا ہے
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
گزر گئے دین و دنیا سے تس پر
تِرا گھر اور کئی منزل رہا ہے
غنیمت جان قاتلِ جانِ مظہرؔ
یہ مقتولوں میں ٹک بسمل رہا ہے
مرزا مظہر جان جاناں
No comments:
Post a Comment