اس گل کون بھیجنا ہے مجھے خط صبا کے ہاتھ
اس واسطے بِکا ہوں چمن میں ہوا کے ہاتھ
برگِ حِنا اوپر لکھو، احوالِ دل مِرا
شاید کبھی تو جا کے لگے دلربا کے ہاتھ
مرتا ہوں میرزائی گل دیکھ ہر سحر
آزاد ہو رہا ہوں دو عالم کی قید سے
مِینا لگا ہے جب سستی مجھ بے نوا کے ہاتھ
مظہرؔ چھپا کے رکھ دلِ نازک مِرے کے تئیں
یہ شیشہ بیچنا ہے کسی میرزا کے ہاتھ
مرزا مظہر جان جاناں
No comments:
Post a Comment