کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں
جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں، پھول مسکراتے ہیں
اب تو میرے شہپارے جو تم ہی سے تھے منسوب، یوں جھلک دکھاتے ہیں
دور ایک مندر میں کچھ دِیے مرادوں کے، جیسے جھلملاتے ہیں
تم نے کب یہ سمجھا تھا، میں نے کب یہ سوچا تھا زندگی کی راہوں میں
کام حسن کاروں کا آنسوؤں کی ضو دے کر، کچھ کنول کھلا دینا
موت حسن کاروں کی جب وہ خود شبِ غم میں یہ دِیے بجھاتے ہیں
تیز تر ہوائیں ہیں موت کی فضائیں ہیں، رات سرد و جامد ہے
احمریں ستارے بھی واقعی دِوانے ہیں، اب بھی مسکراتے ہیں
الوداع، اے میری شاہکار نظموں کی، زرنگار شہزادی
ماورائے الفت بھی کچھ نئے تقاضے ہیں جو مجھے بلاتے ہیں
سلام مچھلی شہری
No comments:
Post a Comment