رفتہ رفتہ ہوئے نظر انداز
ہم پہ جو لوگ تھے اثرانداز
بے نیازی سے دیکھنا اس کا
یہ بھی ہے ایک با ہنر انداز
دوستی میں یہ دشمنی کیسی
صورتوں کا تو اعتبار نہیں
آئینے کا ہے معتبر انداز
تیرے شاعر کا کل اثاثہ ہے
ایک کاغذ، قلم، ہنر، انداز
شبِ تنہائی کا سفر آفاقؔ
کب کسی پر ہوا سحر انداز
زاہد آفاق
No comments:
Post a Comment