Friday, 11 November 2016

رفتہ رفتہ ہوئے نظر انداز

رفتہ رفتہ ہوئے نظر انداز
ہم پہ جو لوگ تھے اثرانداز
بے نیازی سے دیکھنا اس کا
یہ بھی ہے ایک با ہنر انداز
دوستی میں یہ دشمنی کیسی
کوئی تو درمیاں ہے در انداز
صورتوں کا تو اعتبار نہیں
آئینے کا ہے معتبر انداز
تیرے شاعر کا کل اثاثہ ہے
ایک کاغذ، قلم، ہنر، انداز
شبِ تنہائی کا سفر آفاقؔ
کب کسی پر ہوا سحر انداز

زاہد آفاق

No comments:

Post a Comment