جو زندگی میں ہمیں کچھ امید ہی نہ رہی
تو زندگی ہی ہماری رہی رہی نہ رہی
دل فسردہ نے یوں مجھ کو بے نیاز کیا
کہ دہر میں کوئی شے وجہ دلکشی نہ رہی
مقامِ شکر ہے، اک ایسا وقت آ پہنچا
بہت خودی نے خدائی میں سر اٹھایا تھا
بیخودی کا ہے احسان وہ خودی نہ رہی
غلط ہے دوں جو گلستان دہر کو الزام
جب اپنے غنچۂ خاطر میں تازگی نہ رہی
یہ کیا ضرور ہے روؤں میں عیش رفتہ کو
برا ہی کیا ہے جو لب پر تیری ہنسی نہ رہی
یہ کس کی جلوہ نمائی ہے بزم میں وحشتؔ
“بقول میرؔ،”چراغوں میں روشنی نہ رہی
وحشت کلکتوی
No comments:
Post a Comment