Friday, 11 November 2016

جو زندگی میں ہمیں کچھ امید ہی نہ رہی

جو زندگی میں ہمیں کچھ امید ہی نہ رہی
تو زندگی ہی ہماری رہی رہی نہ رہی
دل فسردہ نے یوں مجھ کو بے نیاز کیا
کہ دہر میں کوئی شے وجہ دلکشی نہ رہی
مقامِ شکر ہے، اک ایسا وقت آ پہنچا
کہ دل کے حال کی خود دل کو آگہی نہ رہی
بہت خودی نے خدائی میں سر اٹھایا تھا
بیخودی کا ہے احسان وہ خودی نہ رہی
غلط ہے دوں جو گلستان دہر کو الزام
جب اپنے غنچۂ خاطر میں تازگی نہ رہی
یہ کیا ضرور ہے روؤں میں عیش رفتہ کو
برا ہی کیا ہے جو لب پر تیری ہنسی نہ رہی
یہ کس کی جلوہ نمائی ہے بزم میں وحشتؔ
“بقول میرؔ،”چراغوں میں روشنی نہ رہی

وحشت کلکتوی

No comments:

Post a Comment