جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑتا ہے
یہ پردہ تیرے مِرے درمیاں بھی پڑتا ہے
کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو
کہ اک انا کا سمندر یہاں بھی پڑتا ہے
مزا تو آتا ہے مر مر کے زیست کرنے میں
حسین چہروں پہ ہم سینک لیتے ہیں آنکھیں
بلا سے کم نظری کا دھواں بھی پڑتا ہے
اب اتنا خوش بھی نہ ہو ڈھاکے چار دیواریں
بدن فصیل میں اک شہرِ جاں بھی پڑتا ہے
تِرے نثار، کچھ اتنا کِیا ہے سر افراز
کہ سر سے نیچے تِرا آستاں بھی پڑتا ہے
میں اپنی ذات کی پیچیدگی سے عاجز ہوں
اسی میں ورطۂ کون و مکاں بھی پڑتا ہے
مظفر حنفی
No comments:
Post a Comment