Friday, 11 November 2016

جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑتا ہے

جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑتا ہے
یہ پردہ تیرے مِرے درمیاں بھی پڑتا ہے
کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو
کہ اک انا کا سمندر یہاں بھی پڑتا ہے
مزا تو آتا ہے مر مر کے زیست کرنے میں
کبھی کبھار یہ سودا گِراں بھی پڑتا ہے
حسین چہروں پہ ہم سینک لیتے ہیں آنکھیں
بلا سے کم نظری کا دھواں بھی پڑتا ہے
اب اتنا خوش بھی نہ ہو ڈھاکے چار دیواریں
بدن فصیل میں اک شہرِ جاں بھی پڑتا ہے
تِرے نثار، کچھ اتنا کِیا ہے سر افراز
کہ سر سے نیچے تِرا آستاں بھی پڑتا ہے
میں اپنی ذات کی پیچیدگی سے عاجز ہوں
اسی میں ورطۂ کون و مکاں بھی پڑتا ہے

مظفر حنفی

No comments:

Post a Comment