Friday, 11 November 2016

آئینے میں عکس بھی اپنا نہیں لگتا مجھے

آئینے میں عکس بھی اپنا نہیں لگتا مجھے
اب کوئی تیرے سوا اچھا نہیں لگتا مجھے
ایک دو بوندیں ندامت کے پسینے کی بہت 
ڈوبنے کے واسطے دریا نہیں لگتا مجھے
پھڑپھڑاتا ہے مِرے سینے میں تیرے نام پر
یہ کبوتر اپنی چھتری کا نہیں لگتا مجھے
سادہ دل ہو جائے گا کیسے فرشتوں کی طرح
آدمی اتنا گیا گزرا نہیں لگتا مجھے
اپنی مجبوری کا رونا سب ہی روئیں گے وہاں
مان جائے گا خدا، ایسا نہیں لگتا مجھے
اے مظفرؔ جس کے بھولے پن پہ تم قربان ہو
اپنی جانب سے تو بے پروا نہیں لگتا مجھے

مظفر حنفی

No comments:

Post a Comment