تُو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے
میں ہوں اور رنج ہے اور گوشۂ تنہائی ہے
سچ کہا ہے کہ بہ امید ہے دنیا قائم
دلِ حسرت زدہ بھی تیرا تمنائی ہے
دل کی فریاد جو سنتا ہوں تو رو دیتا ہوں
بے نیازی کی وہ ادائیں دکھاتے ہیں بہت
خوۓ تسلیم میری ان کو پسند آئی ہے
زلف برہم مژہ برگشتہ جبیں چین آلود
میری بگڑی ہوئی تقدیر کی بن آئی ہے
ادب آموز بلا کا ہے تغافل ان کا
شوق پر حوصلہ نے خوب سزا پائی ہے
کہے دیتا ہوں کسی اور کی جانب تو نہ دیکھ
کیا یہ کم ہے کہ وحشتؔ تیرا سودائی ہے
وحشت کلکتوی
No comments:
Post a Comment