Friday, 11 November 2016

راحتیں طول مرض کی صرف درماں ہو گئیں

راحتیں طولِ مرض کی صَرفِ درماں ہو گئیں
زندگی جن مشکلوں سے تھی وہ آساں ہو گئیں
صورتیں امید کی خوابِ پریشاں ہو گئیں
سامنے آنکھوں کے آئیں اور پنہاں ہو گئیں
ان سے کیا لطفِ تعلق ان سے کیا دل بستگی
غیر کے ماتم میں جو زلفیں پریشاں ہو گئیں
ناخن وحشت نے سینے پر جو کیں گلکاریاں
فصلِ گل میں زینتِ چاکِ گریباں ہو گئیں
سیکڑوں رخنے کیے پیدا در و دیوار میں
شوق کی نظریں رقیب چشم درباں ہو گئیں
بے مرمت سی جو قبریں کوچۂ وحشت میں تھیں
وہ بھی آخر صَرفِ استحکامِ زنداں ہو گئیں
کھل گئے چینِ جبیں سے ان کی بدخوابی کے بھید
جن اداؤں کو چھپاتے تھے نمایاں ہو گئیں
دل میں اب کیا رہ گیا ہے، نا امیدی کے سوا
آرزوئیں خون ہو کر نذرِ مِژگاں ہو گئیں
چند باتیں وہ جو ہم رِندوں میں تھیں ضرب المثل
اب سنا مرزاؔ کہ وردِ اہلِ عرفاں ہو گئیں

مرزا ہادی رسوا

No comments:

Post a Comment