جسے ہو حسنِ ظن تم سے کسی سے بدگماں کیوں ہو
تمہارے عہد میں بدنام دورِ آسماں کیوں ہو
کسی پر جان جاتی ہے تو ضبط شوق مشکل ہے
نہ ہو قابو اگر دل پر تو کہنے میں زباں کیوں ہو
جو دل مطلوب ہے اچھا یہ تمہید وفا کیسی
مِری ب تابیوں کا حال غیروں سے نہ کہنا تھا
تم ایسے ہو تو پھر کوئی کسی کا رازداں کیوں ہو
دل آزاری کو جس کی دلربائی ہم سمجھتے ہوں
توقع اس سے کیسی، پھر وہ ہم پر مہرباں کیوں ہو
حقیقت میں مخاطب ہو تمہیں شکوہ شکایت کے
تمہیں جس کے ہو وہ شکوہ سنج آسماں کیوں ہو
فرشتو! جب کسی سے ہو وقوع سعئ لاحاصل
مِرے اعمال میں لکھ دو وہ محنت رائیگاں کیوں ہو
کہیں گے حالِ دل مرزاؔ کبھی رمز و کنایت میں
ملالِ خاطرِ احباب اندازِ بیاں کیوں ہو
مرزا ہادی رسوا
No comments:
Post a Comment