نگاہِ مہر ہے عالم کے اجزائے پریشاں پر
ہر اک ذرے کا حق ثابت ہے خورشیدِ درخشاں پر
فنا کے بعد بھی چھوٹا نہ میں قیدِ تعلق سے
مِری تصویر کھنچوائی گئی دیوارِ زنداں پر
بہل ہی جائے گا دل شہر کی گلیوں میں اے ناصح
کبھی تو اس طرف بھی کوئی بھولے سے نکل آئے
کہاں تک بے کسی رویا کرے گورِ غریباں پر
دکھاتے جوشِ وحشت کے مزے تجھ کو بھی اے ناصح
مگر کیا کیجیۓ قابو نہیں بندِ گریباں پر
مجھے ذوقِ جنوں نے دے کے رخصت ذوقِ خواری کی
کیے ہیں بار ہا احسان اطفالِ دبستاں پر
سمجھتے کافرانِ عشق کی دشواریاں یہ بھی
اگر طاعت بتوں کی فرض ہوتی اہلِ ایماں پر
کہیں ہم اب کچھ ایسے شعر مرزاؔ جس میں جدت ہو
کہاں تک حاشیے لکھا کریں غالب کے دیواں پر
مرزا ہادی رسوا
No comments:
Post a Comment