وہ تختیاں، قلم، دوات، کیا ہوئے
رہے جو بچپنے میں ساتھ، کیا ہوئے
وہ جن کو چھوتے ہی مہک اٹھی تھی سانس
وہ خوشبوؤں سے تیرے ہاتھ، کیا ہوئے
ندی کنارے سارے پیڑ کٹ گئے
میں پھر نہ دیکھ پایا ان کو صبحدم
مِرے ادھورے سپنے، رات کیا ہوئے
میں جیت کر کسے گلے لگاؤں گا
جو دے رہے تھے مجھ کو مات، کیا ہوئے
جو عشق راستوں کی دھول ہو گئے
وہ لوگ جو تھے ”عشق ذات“ کیا ہوئے
کہاں گئے، جو آس پاس تھے، قمرؔ
جو کر رہے تھے مجھ سے بات، کیا ہوئے
قمر ریاض
No comments:
Post a Comment