جب غلط بات پہ منصف کوئی اڑ جاتا ہے
اس کو آئینہ دکھاؤ تو بگڑ جاتا ہے
روشنی کو جو اندھیروں میں اٹھاتا ہوں قدم
وہ قدم سوئے ہوئے سانپ پہ پڑ جاتا ہے
خوشبوؤں کو خس و خاشاک کو کیسا خطرہ
ذائقہ صبر کے پھل کا ہے بہت خوب مگر
وقت پر ہاتھ نہ آئے تو یہ سڑ جاتا ہے
ایسے دوراہے پہ لے آئی محبت تیری
سر کی دستار بچاتا ہوں تو دھڑ جاتا ہے
اپنے احباب سے دوری کا سبب کیا پوچھیں
دھوپ ڈھلتی ہے تو سایہ بھی بچھڑ جاتا ہے
میں کہاں ڈھونڈھ کے لے آتا ہوں الفاظ جلیلؔ
لفظ خود آ کے مِرے شعرمیں جَڑ جاتا ہے
جلیل نظامی
No comments:
Post a Comment