اگر ہم زور دیتے بات پر تو بات بن جاتی
سویرا تان دیتے رات پر تو بات بن جاتی
دریچے کھول کر ماضی کے مستقبل گنوا بیٹھے
نظر رکھتے اگر حالات پر تو بات بن جاتی
قلندر کو یہ طعنہ دے رہا تھا ایک دولت خاں
بھروسہ مال و زر پر جس قدر ہم لوگ رکھتے ہیں
اگر رکھتے خدا کی ذات پر تو بات بن جاتی
کسی کا یاد ہے کہنا گھنی زلفوں میں الجھا کر
غزل کہتے کوئی برسات پر تو بات بن جاتی
رواداری نے دشمن کو مِرے خودسر بنا ڈالا
اگر لاتے اسے اوقات پر تو بات بن جاتی
جلیلؔ اہلِ ہوس ساغر بکف بیٹھے ہیں محفل میں
نہ یوں تم ہاتھ دھرتے ہاتھ پر تو بات بن جاتی
جلیل نظامی
No comments:
Post a Comment