Thursday, 10 November 2016

میری بڑھا کے اور بھی الجھن چلا گیا

میری بڑھا کے اور بھی الجھن چلا گیا
آنکھیں برستی چھوڑ کے ساون چلا گیا
گلّک میں پیسے پورے کھلونے کے ہیں مگر
مشکل یہ آ پڑی ہے،۔۔ کہ بچپن چلا گیا
دنیا کمانے کا ہوا درویش کو خیال
پھر کیا تھا پَل میں ہاتھ سے ہر فن چلا گیا
چھوٹے سے گھر کے بیچ ہیں دیواریں اب کئی
ماں کیا گئی،۔۔ کہ بیٹوں کا آنگن چلا گیا
یہ عشق ہے اسے نہیں اس بات سے غرض
بستی ہی میں رہا کوئی، یا بَن چلا گیا
شمشیر ہاتھ مَل کے مِری رہ گئی عقیلؔ
میدان چھوڑ کر مِرا دشمن چلا گیا

عقیل شاہ

No comments:

Post a Comment