میری بڑھا کے اور بھی الجھن چلا گیا
آنکھیں برستی چھوڑ کے ساون چلا گیا
گلّک میں پیسے پورے کھلونے کے ہیں مگر
مشکل یہ آ پڑی ہے،۔۔ کہ بچپن چلا گیا
دنیا کمانے کا ہوا درویش کو خیال
چھوٹے سے گھر کے بیچ ہیں دیواریں اب کئی
ماں کیا گئی،۔۔ کہ بیٹوں کا آنگن چلا گیا
یہ عشق ہے اسے نہیں اس بات سے غرض
بستی ہی میں رہا کوئی، یا بَن چلا گیا
شمشیر ہاتھ مَل کے مِری رہ گئی عقیلؔ
میدان چھوڑ کر مِرا دشمن چلا گیا
عقیل شاہ
No comments:
Post a Comment