رخِ حیات کو رنگِ نشاط مل جائے
کبھی جو تُو از رہِ التفات مل جائے
میں اس امید پہ صحرا میں آگے بڑھتا ہوں
کہ اگلے موڑ پہ شاید فرات مل جائے
یہ ٹوٹ پھوٹ ہے میرے وجود کا خاصہ
میں اپنی ساری بہاریں نثار کر دوں گا
دیارِ گل کو خزاں سے نجات مل جائے
میں اپنے حال پہ قانع رہوں خداوندا
جنہیں طلب ہے انہیں کائنات مل جائے
مقبول عامر
No comments:
Post a Comment