Thursday, 10 November 2016

رخ حیات کو رنگ نشاط مل جائے

رخِ حیات کو رنگِ نشاط مل جائے
کبھی جو تُو از رہِ التفات مل جائے
میں اس امید پہ صحرا میں آگے بڑھتا ہوں
کہ اگلے موڑ پہ شاید فرات مل جائے
یہ ٹوٹ پھوٹ ہے میرے وجود کا خاصہ
میں مرنہ جاؤں جو مجھ کو ثبات مل جائے
میں اپنی ساری بہاریں نثار کر دوں گا
دیارِ گل کو خزاں سے نجات مل جائے
میں اپنے حال پہ قانع رہوں خداوندا
جنہیں طلب ہے انہیں کائنات مل جائے

مقبول عامر

No comments:

Post a Comment