روشنی دائرے بناتی ہے
کشمیر کے تناظر میں
روشنی دائرے بناتی ہے
ایک وہ دائرہ کہ جس میں ابھی
موت اور زندگی کے دو دھارے
ایک دوجے کے مختلف رخ میں
ایک دوجے کا قطع کرتے ہیں
ڈل میں جب چاند جھلملاتا ہے
بیرکوں سے نکل کے موت کا بھوت
بستیوں کو نگلنے لگتا ہے
جو صلیبیں سجا کے اترے ہیں
ان کے ماتھوں پہ ماؤں کے بوسے
چاند بن کر چمک رہے ہوں گے
پھول بن کر مہک رہے ہوں گے
اتنی گھمبیر چپ، کہ بستی میں
آگ کے رقصِ بے صدا میں فقط
چھت کی کڑیاں چٹخنے کی آواز
اس قدر چپ میں خون کے جل سے
دور تک اک کھنک تو جاتی ہے
بان کی کھاٹ پر رکھی خوشبو
چند لمحے مہک تو جاتی ہے
دھوپ کے ہاتھ پیلے ہوتے ہی
چاند کی لاش اٹھائی جاتی ہے
چارپائی پہ سونے والوں کو
بیبیاں پوچھتی ہیں رو رو کر
ایسی جلدی بھی کیا تھی مرنے کی''
''پھول کی عمر کے تو ہو لیتے
اور ہر چیز بھر سی جاتی ہے
لاش سے کھاٹ، درد سے آنگن
اور آنگن سے لے کے کمروں تک
اک خلا سے زیادہ خالی پن
صرف آنکھوں میں اک سوال کی جوت
ایک وہ دائرہ ہے جس میں فقط
زیست کا رقصِ بے حمیّت ہے
ایک یہ دائرہ ہے جس میں قلم
لفظ کے مورچے بناتا ہے
زندگی کے دِیے جلاتا ہے
روشنی دائرے بناتی ہے
افتخار مغل
No comments:
Post a Comment