Tuesday, 4 August 2020

روشنی دائرے بناتی ہے

روشنی دائرے بناتی ہے

کشمیر کے تناظر میں

روشنی دائرے بناتی ہے
ایک وہ دائرہ کہ جس میں ابھی
موت اور زندگی کے دو دھارے
ایک دوجے کے مختلف رخ میں
ایک دوجے کا قطع کرتے ہیں

ڈل میں جب چاند جھلملاتا ہے
بیرکوں سے نکل کے موت کا بھوت
بستیوں کو نگلنے لگتا ہے
جو صلیبیں سجا کے اترے ہیں
ان کے ماتھوں پہ ماؤں کے بوسے
چاند بن کر چمک رہے ہوں گے
پھول بن کر مہک رہے ہوں گے
اتنی گھمبیر چپ، کہ بستی میں
آگ کے رقصِ بے صدا میں فقط
چھت کی کڑیاں چٹخنے کی آواز
اس قدر چپ میں خون کے جل سے
دور تک اک کھنک تو جاتی ہے
بان کی کھاٹ پر رکھی خوشبو
چند لمحے مہک تو جاتی ہے
دھوپ کے ہاتھ پیلے ہوتے ہی
چاند کی لاش اٹھائی جاتی ہے
چارپائی پہ سونے والوں کو
بیبیاں پوچھتی ہیں رو رو کر
ایسی جلدی بھی کیا تھی مرنے کی''
''پھول کی عمر کے تو ہو لیتے
اور ہر چیز بھر سی جاتی ہے
لاش سے کھاٹ، درد سے آنگن
اور آنگن سے لے کے کمروں تک
اک خلا سے زیادہ خالی پن
صرف آنکھوں میں اک سوال کی جوت
ایک وہ دائرہ ہے جس میں فقط
زیست کا رقصِ بے حمیّت ہے
ایک یہ دائرہ ہے جس میں قلم
لفظ کے مورچے بناتا ہے
زندگی کے دِیے جلاتا ہے
روشنی دائرے بناتی ہے

افتخار مغل

No comments:

Post a Comment