سوا جلوہ کے تیرے اور میرے دل میں کیا ہوتا
سمجھتا اس کو بت خانہ، جو نقش ماسوا ہوتا
کسی کا ذکر کر کے اس قدر لی چٹکیاں میں نے
گلِ خود رو چمن میں ہنستے ہنستے رو دیا ہوتا
وہ برہم ہو گئے، زلفیں ذرا رخ سے جو سرکائیں
مِرے باعث سے عالم میں ہوا مشہور تُو، ورنہ
یہ شُہرے ہر جگہ ہوتے، یہ چرچا جابجا ہوتا
تھکا مارا تلاشِ منزلِ مقصد کا ہوں حیدر٭
قدم پر اس کے سر رکھتا، جو کوئی رہنما ہوتا
حیدر نظم طباطبائی
No comments:
Post a Comment