Wednesday, 5 August 2020

سوا جلوہ کے تیرے اور میرے دل میں کیا ہوتا

سوا جلوہ کے تیرے اور میرے دل میں کیا ہوتا
سمجھتا اس کو بت خانہ، جو نقش ماسوا ہوتا
کسی کا ذکر کر کے اس قدر لی چٹکیاں میں نے
گلِ خود رو چمن میں ہنستے ہنستے رو دیا ہوتا
وہ برہم ہو گئے، زلفیں ذرا رخ سے جو سرکائیں
خطا گر اور کچھ ہوتی، نہیں معلوم کیا ہوتا؟
مِرے باعث سے عالم میں ہوا مشہور تُو، ورنہ
یہ شُہرے ہر جگہ ہوتے، یہ چرچا جابجا ہوتا
تھکا مارا تلاشِ منزلِ مقصد کا ہوں حیدر٭
قدم پر اس کے سر رکھتا، جو کوئی رہنما ہوتا

حیدر نظم طباطبائی

No comments:

Post a Comment