میں تعبیروں کا تاجر ہوں
میں تعبیروں کا تاجر ہوں کیا تم تعبیر خریدو گے
کیا تم گم گشتہ و گم کردہ اپنی جاگیر خریدو گے
منظر میں کشادہ سینے ہیں اور پس منظر میں گولی ہے
ہر اک تصویر میں مظلوموں کے گرم لہو کی ہولی ہے
سڑکوں پہ جو ہیں جو فریاد کناں ان ماؤں کی ڈنڈا ڈولی ہے
کھچتی ہے جو میرے تصور میں غم کی تصویر خریدو گے
میں تعبیروں کا تاجر ہوں، کیا تم تعبیر خریدو گے
ڈل جھیل کے خون ملے پانی سے بھر کر کچھ جگ لایا ہوں
پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ہیرے، موتی اور نگ لایا ہوں
گلیوں میں سسکتی لاشوں نے جو دی ہے وہ شہ رگ لایا ہوں
ان سب نے بس اتنا پوچھا ہے تم کب کشمیر خریدو گے
میں تعبیروں کا تاجر ہوں، کیا تم تعبیر خریدو گے
اصحابِِ نبیؐ کے گلشن کی کلیوں سے سجی کچھ چھڑیاں ہیں
سنت کے سچے موتی ہیں، قرآن کی قیمتی لڑیاں ہیں
کچھ عشق نبیؐ کے حلقے ہیں کچھ خوف خدا کی کڑیاں ہیں
ہر طوق سے جو آزاد کرے کیا وہ زنجیر خریدو گے
میں تعبیروں کا تاجر ہوں، کیا تم تعبیر خریدو گے
تکبیر کے پُر ہیبت نعرے بھی، توحیدی للکار بھی ہے
دشمن کی صفیں جو چیر کے رکھ دے اک ایسی یلغار بھی ہے
میرے تھیلے میں جذبوں کی دھار ہے جس پر وہ تلوار بھی ہے
کوئی تیغ و تبر کوئی خنجر نیزہ کوئی شمشیر خریدو گے
میں تعبیروں کا تاجر ہوں، کیا تم تعبیر خریدو گے
سلیم ناز بریلوی
No comments:
Post a Comment