Tuesday 13 October 2015

محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی

محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی

محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی
ہوا پُر زور ہے، پُر شور ہے، منہ زور ہے، لیکن
ہوا چالاک ہے، سفاک ہے، بے باک ہے، لیکن
ہوا یلغار ہے، آزار ہے، تلوار ہے، لیکن
ہوا بے مہر وحشی لہر ہے، پُر قہر ہے، لیکن
محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی

جو خالق ہے محبت کا، جو حافظ ہے محبت کا
جو ضامن ہے محبت کا، وہی مالک ہوا کا ہے
تو پھِر کیسے ہوا کو سرکشی کرنے کا یارا ہو
محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی

چلو عہدِ گزشتہ کے حوالے سامنے رکھ کر
نتیجے پر پہنچتے ہیں
اگر اب تک نہیں سمجھے
تو اس طرح سمجھتے ہیں
ہمیں تاریخ کے البم سے اِک تصویر مِلتی ہے
کہ دریا جس کا غصہ پَل میں کشتی کو ڈبوتا ہے
اشارہ پا کے خالق کا
کسی جانباز کے کچے گھڑے کو
گود میں لے کر
کنارے تک بھی لاتا ہے
یہی قدرت کا سِکہ ہے
جو ہر شے پر چلتا ہے
تو جانِ جاں! اگر اپنی محبت بھی
وصالِ جسم و جاں کی
عارضی راحت سے برتر ہے
بدن کے قُرب سے
آگے بہت آگے کی منزل ہے
یہ اک انمول رِشتہ ہے
یہ دو روحوں کا بندھن ہے
تو پھر وحشی ہوا فِطرت کی مرضی اور منشا پر
فقط مبہم اشارے سے، بدل کر اپنی فطرت کو
محبت کے چراغوں کی حفاظت خود ہی کر لے گی
محبت کے چراغوں کو ہوا کیسے بجھائے گی

خلیل اللہ فاروقی

No comments:

Post a Comment