Monday, 31 August 2015

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو
جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو
وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں
کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو
رنگ ساحل کا نکھر آئے گا
دو گھڑی جانب دریا دیکھو

صبح کا بھید کیا ملا ہم کو

صبح کا بھید کیا ملا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
شوقِ نظارہ کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو

Saturday, 29 August 2015

کچھ اس انداز سے اس فتنہ پرور کا پیام آیا

کچھ اس انداز سے اس فتنہ پرور کا پیام آیا
نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا
بہارِ مے کدہ، تقسیم ہونے کو ہوئی، لیکن
مِرے حصے میں تم آئے، نہ مے آئی نہ جام آیا
غمِ ایام، تیری برہمی کا نام ہے شاید
جہاں تیری نظر بدلی، وہیں مشکل مقام آیا

آئی نہ پھر نظر کہیں جانے کدھر گئی

آئی نہ پھر نظر کہیں، جانے کدھر گئی
ان تک تو ساتھ گردشِ شام و سحر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر جلوۂ حیات
لوٹ آئی زخم کھا کے جدھر بھی نظر گئی
نادم ہے اپنے اپنے قرینے پہ ہر نظر
دنیا لہو اچھال کے کتنی نکھر گئی

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں
ہم بھی نیند کی صورت اڑتے جاتے ہیں
جب انداز بہاروں کے یاد آتے ہیں
ہم کاغذ پر کیا کیا پھول بناتے ہیں
وقت کا پتھر بھاری ہوتا جاتا ہے
ہم مٹی کی صورت دیتے جاتے ہیں

تار دل کے ٹوٹ کر چپ ہو گئے

تار دل کے ٹوٹ کر چپ ہو گئے
چپ نہ ہوتے تھے مگر چپ ہو گئے
سوچ کر آئے تھے ہم کیا کیا، مگر
رنگِ محفل دیکھ کر چپ ہو گئے
کیا کبھی اس کا بھی آٰیا ہے خیال؟
کیوں ترے شوریدہ سر چپ ہو گئے

جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے

جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے
متاعِ درد تو ہم راہ میں لٹا آئے
وہ گرد اڑائی کسی نے کہ سانس گھٹنے لگی
ہٹے یہ راہ سے دیوار تو ہوا آئے
کسی مقامِ تمنا سے جب بھی پلٹے ہیں
ہمارے سامنے اپنے ہی نقشِ پا آئے

آپ سے آشنائی کرتے ہیں

آپ سے آشنائی کرتے ہیں
بات اپنی پرائی کرتے ہیں
کر رہے ہیں کوئی خطا جیسے
اس طرح ہم بھلائی کرتے ہیں
راہ سے آشنا نہیں پھر بھی
حسرتِ رہنمائی کرتے ہیں

سامنے بیٹھ کے ہر بات ہوئی

سامنے بیٹھ کے ہر بات ہوئی
پھر بھی ان سے نہ ملاقات ہوئی
یوں تو کیا کچھ نہیں ہوتا، لیکن
پوچھئے اس سے جسے مات ہوئی
دل ہی جب ٹوٹ گیا تو پھر کیا
نہ ہوئی یا بسر اوقات ہوئی

یاد آؤ نہ صبح و شام بہت

یاد آؤ نہ صبح و شام بہت
زندگی کو ہیں اور کام بہت
ابھی آزادئ حیات کہاں؟
ابھی پیشِ نظر ہیں دام بہت
ضبطِ غم، آخری مقام نہیں
اس سے آگے بھی ہیں مقام بہت

بے کلی بے سبب نہیں ہوتی

بے کلی بے سبب نہیں ہوتی
اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گِلہ کریں غم کا
آپ سے بھُول کب نہیں ہوتی
کھُل کے باتیں کرو کہ اب ہم سے
گفتگو زیرِ لب نہیں ہوتی

کس کا احساس اور کیسے گلے

کس کا احساس اور کیسے گِلے
بات کرنے سے پہلے ہونٹ سِلے
زندگی پھر بھی اک حقیقت ہے
کچھ تمہارا پتہ مِلے نہ مِلے
گلستاں کی سیاہ بختی دیکھ
تیرے جانے کے بعد پھول کِھلے

اہل دل فرمائیں کیا درکار ہے

اہلِ دل فرمائیں، کیا درکار ہے؟
جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے
خار ک کوئی کلی کہتا نہیں
نرم ہو، نازک ہو پھر بھی خار ہے
کچھ کہیں تو آپ ہوتے ہیں خفا
چپ رہیں تو زندگی دشوار ہے

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے
صبر کا جام پی لیا ہم نے
کیسے انساں، کس کی آزادی
سر پہ الزام ہی لیا ہم نے
لو بدل دو حیات کا نقشہ
اپنی آنکھوں کو سی لیا ہم نے

Friday, 28 August 2015

اتنے لوگوں میں کہہ دو آنکھوں سے

اتنے لوگوں میں کہہ دو آنکھوں سے
اتنا اونچا نہ بولا کریں 
سب میرا نام جان جاتے ہیں

گلزار

کبھی کبھی بازار میں یوں بھی ہو جاتا ہے

کبھی کبھی، بازار میں یوں بھی ہو جاتا ہے
قیمت ٹھیک تھی، جیب میں اتنے دام نہیں تھے
ایسے ہی اک روز، تمہیں میں ہار آیا تھا

گلزار

کارزار: نحیف چڑیا، نزار چڑیا

کارزار

نحیف چِڑیا، نزار چِڑیا
حسِیں چِڑیا، جمیل چِڑیا
کسی شکاری کا گھاؤ کھا کر نجانے کب سے سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مَری نہیں تھی

دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے

دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن، مرے مکان میں تھے
ناخدا سے گِلہ،۔ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے
سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے

اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا

اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا
میں نیّتِ شب خوں سے خیمے میں گیا لیکن
دشمن کے سرہانے سے شمشیر اٹھا لایا
وہ صبحِ رہائی تھی یا شامِ اسیری تھی
جب میں درِ زنداں سے زنجیر اٹھا لایا

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم
دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم
دیتے نہیں سُجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
یاں تو ہر اک قدم پہ خلل ہے حواس کا
اے خضرؑ! باز آئے تِری ہمرہی سے ہم

Thursday, 27 August 2015

فرد جرم فقیہ شہر بولا بادشاہ سے

فرد جرم 

فقیہِ‌ شہر بولا بادشاہ سے 
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا 
اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا 
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے 

مقبول عامر

میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے

میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے
جس نے جو بات بھی کرنی ہے سرِعام کرے
زخم پر وقت کا مرہم تو لگا دیتی ہے
اور کیا اس کے سوا گردشِ ایام کرے
محتسب سے میں اکیلا ہی نمٹ سکتا ہوں
جس نے جرم کیا ہے، وہ مرے نام کرے

آنکھوں کے خواب زار کو تاراج کر گئی

آنکھوں کے خواب زار کو تاراج کر گئی 
پاگل ہوا چلی تو حدوں سے گزر گئی 
دو گام تک ہی سبز مناظر تھے، اس کے بعد 
اک دشتِ بے کراں تھا، جہاں تک نظر گئی 
پھر شام کی ہوا نے تری بات چھیڑ دی 
پھر میرے چار سُو تری خوشبو بکھر گئی

یہ عہد کرب مرے نقش کو ابھارے گا

یہ عہدِ کرب مرے نقش کو ابھارے گا 
زمانہ اس کو مرے نام سے پکارے گا 
ازل سے آدمؑ و فطرت ہیں‌ برسرِ پیکار 
خبر نہیں ہے کہ یہ جنگ کون ہارے گا 
ہمیں‌ یہ غم ہے نگارِ‌ وطن کہ ہم نہ رہے 
تو جانے کون ترا قرضِ غم اتارے گا 

ہاں کچھ تو مزاج اپنا جنوں خیز بہت ہے

ہاں کچھ تو مزاج اپنا جنوں خیز بہت ہے
اور کچھ یہ رہِ عشق، دلآویز بہت ہے
مرنے کے لیے تیشۂ فرہاد ہے کافی
جینے کے لیے حیلۂ پرویز بہت ہے
اب کے نہ کوئی قصر نہ ایوان بچے گا
اب کے جو چلی ہے، وہ ہوا تیز بہت ہے

اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے

اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے
کہ میرا صبر ترے جبر سے زیادہ ہے
تُو بُوئے گل کی طرح اڑ رہا ہے اور کوئی
تری تلاش میں برسوں سے پا پیادہ ہے
میں جنگ جیت کے تم کو معاف کر دوں گا
تمہاری سوچ سے بڑھ کر یہ دل کشادہ ہے

Tuesday, 25 August 2015

گہرے کچھ اور ہو کے رہے زندگی کے زخم

گہرے کچھ اور ہو کے رہے زندگی کے زخم
خود آدمی نے چھیل دیئے، آدمی کے زخم
پھر بھی نہ مطمئن ہوئی تہذیبِ آستاں
ہم نے جبیں پہ ڈال دیئے بندگی کے زخم
پھر سے سجا رہے ہیں اندھیروں کی انجمن
وہ تیرہ بخت جن کو ملے روشنی کے زخم

دنیا سبب شورش غم پوچھ رہی ہے

دنیا سببِ شورشِ غم پوچھ رہی ہے
اِک مہرِ خموشی ہے کہ ہونٹوں پہ لگی ہے
کچھ اور زیادہ اثرِ تشنہ لبی ہے
جب سے تری آنکھوں چھلکتی ہوئی پی ہے
اس جبر کا اے اہلِ جہاں! نام کوئی ہے؟
کلفت میں بھی آرام ہے غم میں بھی خوشی ہے

جو گھر بھی ہے ہم صورت مقتل ہے ذرا چل

جو گھر بھی ہے ہم صورتِ مقتل ہے ذرا چل
کھٹکائیں شہیدوں کے دریچوں کو ہوا چل
اک دوڑ میں ہر منظر ہستی ہے چلا چل
چلنے کی سکت جتنی ہے، اس سے بھی سوا چل
ہو مصلحت آمیز کہ نا مصلحت آمیز
جیسا بھی ہو، ہر رنگ تعلق کو نبھا چل

Sunday, 23 August 2015

کسی گلی کسی کوچے میں گھر دیئے جائیں

کسی گلی کسی کوچے میں گھر دیئے جائیں
وگرنہ شہر بدر لوگ کر دیئے جائیں
امیرِ شہر کی سنتے ہیں اب یہ خواہش ہے
ہمارے پاؤں ہمیں باندھ کر دیئے جائیں
قدم قدم پہ کھڑی ہو رہی ہوں دیواریں
تو گام گام پہ لازم ہے سر دیئے جائیں

ہم دلگرفتہ ایک زمانے سے تو رہے

ہم دل گرفتہ ایک زمانے سے تو رہے
یہ بات ہر کسی کو بتانے سے تو رہے
بدلے نہ ہوں گے آپ، یہ ہم کیسے مان لیں
آخر جنابِ من بھی زمانے سے تو رہے
اب تم بھی ناصحوں کی طرح بولنے لگے
اب ہم تمہاری بات میں آنے سے تو رہے

ملا اگر نہ کوئی ڈھنگ کا بہانا تو

ملا اگر نہ کوئی ڈھنگ کا بہانہ تو
تمہیں بھی پڑ گیا وعدہ نبھانا تو
تمہیں گماں ہے کہ زخموں کو وقت بھر دے گا
مگر جو ختم ہوا یوں نہ یہ فسانہ تو
جو راز دل میں چھپائے ہوئے ہو مدت سے
خدا نہ کردہ، کبھی پڑ گیا بتانا تو

جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا

جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا
یہ عشق، جان کو میرے کوئی عذاب ہوا
کِیا جو قتل مجھے، تم نے خوب کام کیا
کہ میں عذاب سے چھوٹا، تمہیں ثواب ہوا
کبھی تو شیفتہ اس نے کہا، کبھی شیدا
غرض کہ، روز نیا اک مجھے خطاب ہوا

ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا

ہم نے تِری خاطر سے دلِ زار بھی چھوڑا
تُو بھی نہ ہوا یار، اور اک یار بھی چھوڑا
کیا ہو گا رفُوگر سے رفُو، میرا گریبان
اے دوست جنوں تُو نے نہیں تار بھی چھوڑا
دِیں دے کے گیا کفر کے بھی کام سے عاشق
تسبیح کے ساتھ اس نے تو زنّار بھی چھوڑا

زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

زلف میں بَل اور کاکل پُرخم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
وہ ہوئی سرکش یہ ہوئی برہم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
دل کو ہے پیچ و تاب الم سے، دودِ جگر پیچیدہ دم سے
دیکھ تو کیسا عشق میں ہمدم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
پیچ سے وہ کرتا ہے یاری باتیں اس کی پیچ کی ساری
نکلیں اس کے پیچ سے کیا ہم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا

میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا

میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نورِ جمال تھا
کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا
دمِ بِسمل اے بت عشوہ گر! خوشی عید کی سی ہوئی مجھے
خمِ تیغ تیرا جو سامنے نظر آیا مثلِ ہلال تھا
کہو اس تصورِ یار کو کہوں کیوں نہ خضرِؑ خجستہ پے
کہ یہی تو دشتِ فراق میں مجھے رہنمائے وصال تھا

Saturday, 22 August 2015

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا
معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا
میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں
پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا
کبھی بھلایا، کبھی یاد کر لیا اس کو
یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا

شور زنجیر کو زنجیر کی رسوائی سمجھ

شورِ زنجیر کو زنجیر کی رسوائی سمجھ
سنگ آئے تو اسے حاشیہ آرائی سمجھ
روشنی سارے چراغوں کی اسے ڈھونڈتی ہے
اب ہوا زور سے آئے گی، اسے آئی سمجھ
تُو سمندر کو بھی پایاب سمجھتا ہے، مگر
عکسِ مہتاب! مِری آنکھ کی گہرائی سمجھ

حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے

حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے
پياس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے
ميں بھی رکتا ہوں مگر ريگِ رواں کی صورت
ميرا ٹھہراؤ روانی کی طرح ہوتا ہے
تيرے جاتے ہی ميں شکنوں سے نہ بھر جاؤں کہيں
کيوں جدا مجھ سے جوانی کی طرح ہوتا ہے

گر جائے جو دیوار تو ماتم نہیں کرتے

گر جائے جو دیوار تو ماتم نہیں کرتے
کرتے ہیں بہت لوگ، مگر ہم نہیں کرتے
ہے اپنی طبیعت میں جو خامی تو یہی ہے
ہم عشق تو کرتے ہیں، مگر کم نہیں کرتے
نفرت سے تو بہتر ہے رستے ہی جدا ہوں
بے کار گزرگاہوں کو باہم نہیں کرتے

Friday, 21 August 2015

جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے

جیون کو دکھ، دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے، کس سے کہانی کہتے
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے، ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے
وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے، تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے، تیری نشانی کہتے

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی، ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی، ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش! کہ ہوتی مری گہرائی، ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گِن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور، جو سلجھائی ذرا اور

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور

یہ قرض تو میرا ہے، چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور اشک بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یونہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی

وہ میرے حال پہ رویا بھی، مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے، اپنا بھی ہے، پرایا بھی
یہ انتظار، سحر کا تھا، یا تمہارا تھا
دِیا جلایا بھی میں نے، دِیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشمِ دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی، میرا سایا بھی

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں، جینے کی دعا دیں تو کسے دیں
پتھر ہیں سبھی لوگ، کریں بات تو کس سے
اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوئے دیکھے
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے، دِیا دیں تو کسے دیں

یہ سمندر ہے کنارے ہی کنارے جاؤ

یہ سمندر ہے، کنارے ہی کنارے جاؤ
عشق ہر شخص کے بس کا نہیں پیارے جاؤ
یوں تو مقتل میں تماشائی بہت آتے ہیں
آؤ اس وقت کے جس وقت پکارے جاؤ
دل کی بازی لگے پھر جان کی بازی لگ جائے
عشق میں ہار کے بیٹھو نہیں، ہارے جاؤ

کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے

کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے
یہ بات وہ کیا جانے، جو سائے میں پلے ہے
دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے
تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے
کیا دل ہے کہ اک سانس بھی آرام نہ لے ہے
محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے

دکھ نوشتہ ہے تو آندھی کو لکھا آہستہ

دُکھ نوِشتہ ہے تو آندھی کو لکھا، آہستہ
اے خدا! اب کے چلے زرد ہوا، آہستہ
خواب جل جائیں، مِری چِشم تمنا بجھ جائے
بس ہتھیلی سے اڑے رنگ حِنا، آہستہ
زخم ہی کھولنے آئی ہے، تو عجلت کیسی
چھو مِرے جسم کو، اے بادِ صبا! آہستہ

تخت ہے اور کہانی ہے وہی

تخت ہے، اور کہانی ہے وہی
اور سازش بھی پرانی ہے وہی
قاضئ شہر نے قبلہ بدلا
لیکن خطبے میں روانی ہے وہی
خیمہ کش اب کے ذرا دیکھ کے ہو
جس پہ پہرہ تھا، یہ پانی ہے وہی

نہ کوئی آنکھ ملتی ہے نہ کوئی جام ملتا ہے

نہ کوئی آنکھ ملتی ہے نہ کوئی جام ملتا ہے
ابھی تو مے کدہ ہم کو برائے نام ملتا ہے
مجھے اے دوست! وہ تکلیف دے اپنی نگاہوں سے
کہ جس تکلیف سے تکلیف کو آرام ملتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے عبادت ہو گئی میری
کوئی زہرہ جبیں جب صبح کے ہنگام ملتا ہے

یا زہرہ جبینوں کی مناجات کریں گے

یا زہرہ جبینوں کی مناجات کریں گے 
یا بندگئ پیرِ خرابات کریں گے 
یہ عقل کے سہمے ہوئے بیمار ارادے 
کیا چارۂ ناسازئ حالات کریں گے 
آ، اے، غم دوراں! مے خانہ ہے نزدیک 
آرام سے بیٹھیں گے، ذرا بات کریں گے 

اے تو کہ روز و شب کو مہ و آفتاب دے

اے تُو کہ روز و شب کو مہ و آفتاب دے
برسوں سے جاگتی ہوئی آنکھوں کو کوئی خواب دے
میں وہ نقش گر تِرے ارض و سما کا ہوں
تُو وہ کہ مجھ کو دونوں جہاں کے عذاب دے
میں نے تو تن بدن کا لہو نذر کر دیا
اے شہر یار! تُو بھی تو اپنا حساب دے

سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی

سو دوریوں پہ بھی مِرے دل سے جدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دیا
ورنہ وہ آنکھ اتنی زیادہ خفا نہ تھی
یوں دل لرز اٹھا ہے کسی کو پکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی

کوچہ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے

کوچہٴ دلبر میں میں، بلبل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے
نشۂ دولت سے، منعم پیرہن میں مست ہے
مردِ مفلس، حالتِ رنج و محن میں مست ہے
دورِ گردوں ہے خداوندا! کہ یہ دورِ شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے

گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے

گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے، سر چڑھتا ہے، دیوانہ ہوا ہے
آسیبِ پری، جلوۂ جانانہ ہوا ہے
جس کو نظر آیا ہے، وہ دیوانہ ہوا ہے
اس عالمِ ایجاد میں، گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا ہے، کیا کیا نہ ہوا ہے

Wednesday, 19 August 2015

وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے

وہ عکس بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
پیام بر ہے وہی تو مِری شبِ غم کا
وہ اک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے
کھلی فضا کا پیامی، ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے

سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا

سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا
جب آئی شب تِرے خوابوں نے مجھ کو گھیر لیا
مِرے لبوں پہ ابھی نام تھا بہاروں کا
ہجومِ شوق میں خاروں نے مجھ کو گھیر لیا
کبھی جنوں کے زمانے، کبھی فراق رُتیں
کہاں کہاں تِری یادوں نے مجھ کو گھیر لیا

Tuesday, 18 August 2015

جھیل اور جھیل کنارے کا شجر میرے بعد

جھیل اور جھیل کنارے کا شجر میرے بعد
ہوگا چپ چاپ بہت چاند ادھر میرے بعد
کون رہتا ہے یہاں میرے علاوہ گھر میں
لوٹ آتا ہے جو ہر شام، مگر میرے بعد
شہر تو پہلے بھی لوگوں سے بھرا رہتا تھا
ہو گا ویران بہت، ایک کھنڈر میرے بعد

قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے

قیس و لیلیٰ کا طرف دار اگر مر جائے
میں بھی مر جاؤں یہ کردار اگر مر جائے
پھر خدایا! تجھے سورج کو بجھانا ہو گا
آخری شخص ہے بے دار اگر مر جائے
چھپنے والے تو کبھی سوچ کہ اک دن بالفرض
یہ مِری خواہشِ دیدار اگر مر جائے

جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت

جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت
مِری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو
مِرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت
وہ ہم ہی تھے، کہ جنہیں ڈوبنا پڑا، ورنہ
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے

اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے 
پنجرے میں بھی شور مچایا جا سکتا ہے 
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر 
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے 
دل پر اگنے والے یاد کے شہتوتوں پر 
وصل کا ریشم خود بھی بنایا جا سکتا ہے 

عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی

عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
اداس لگتا نہیں ہوں، اداس ہو کر بھی
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
نمُو کی روشنی لے کر اُگا ہوں صحرا میں
میں سبز ہو نہیں سکتا ہوں گھاس ہو کر بھی

Monday, 17 August 2015

اس سے نالاں تھے فرشتے وہ خفا کس سے تھا

اس سے نالاں تھے فرشتے وہ خفا کس سے تھا
اختلاف اس کا خداؤں کے سوا کس سے تھا
یوں تو محفوظ رہے ذہن میں لاکھوں الفاظ
یاد آیا نہیں، دروازہ کھلا کس سے تھا
میرے بارے میں بڑی رائے غلط تھی اس کی
جانے وہ میرے تصور میں مِلا کس سے تھا

اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی

اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی
خزاں رُتوں میں‌ بھی گلاب مانگتی ہے زندگی
حقیقتوں کا دشت چاہے جس قدر ہو مستند
کبھی کبھی حسیں‌ خواب مانگتی ہے زندگی
کچھ اس قدر شدید تشنگی ہے دل پہ حکمراں
کہ پھر کوئی نیا سراب مانگتی ہے زندگی

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں، ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے، دل وہ نرالی بستی ہے
عجزِ گناہ کے دم تک ہیں، عصمتِ کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے، رازِ بلندی، پستی ہے

آج ہم اپنی دعاؤں کا اثر دیکھیں گے

آج ہم اپنی دعاؤں کا اثر دیکھیں گے 
تیرِ نظر دیکھیں گے زخمِ جگر دیکھیں گے
آپ تو آنکھ ملاتے ہوئے شرماتے ہیں
آپ تو دل کے دھڑکنے سے بھی ڈر جاتے ہیں
پھر بھی یہ ضد ہے کہ زخمِ جگر دیکھیں گے
پیار کرنا دلِ بے تاب! بُرا ہوتا ہے
سنتے آئے ہیں کہ یہ خواب بُرا ہوتا ہے

صرف اتنے جرم پر ہنگامہ ہوتا جائے ہے

صرف اتنے جرم پر ہنگامہ ہوتا جائے ہے 
تیرا دیوانہ تِری گلیوں میں دیکھا جائے ہے 
آپ کس کس کو بھلا سُولی چڑھاتے جائیں گے
اب تو سارا شہر ہی "منصور" بنتا جائے ہے
دلبروں کے بھیس میں پھرتے ہیں چوروں کے گروہ
جاگتے رہیو، کہ ان راتوں میں لُوٹا جائے ہے 

ہم کو دیوانہ جان کے کیا کیا ظلم نہ ڈھایا لوگوں نے

ہم کو دِوانہ جان کے کیا کیا ظلم نہ ڈھایا لوگوں نے
دِین چھڑایا، دھرم چھڑایا، دیس چھڑایا، لوگوں نے 
تیری گلی میں آ نکلے تھے، دوش ہمارا اتنا تھا
پتھر مارے، تہمت باندھی، عیب لگایا، لوگوں نے 
تیری لٹوں میں سو لیتے تھے بے گھر عاشق بے گھر لوگ
بوڑھے برگد! آج تجھے بھی کاٹ گرایا لوگوں نے 

جسم پر باقی یہ سر ہے کیا کروں

جسم پر باقی یہ سر ہے، کیا کروں
دستِ قاتل بے ہنر ہے، کیا کروں 
چاہتا ہوں، پھونک دوں اس شہر کو
شہر میں ان کا بھی گھر ہے، کیا کروں 
وہ تو سو سو مرتبہ چاہیں مجھے
میری چاہت میں کسر ہے، کیا کروں

Sunday, 16 August 2015

کس گھاٹ اترنا تھا لب جو نکل آئے

کس گھاٹ اترنا تھا لبِ جُو نکل آئے
پھر شام ہوئی دشت میں آہُو نکل آئے
اڑنے لگی دیوارِ قفس سے کوئی تحریر
یا تیرے اسیروں ہی کے بازُو نکل آئے
اس ڈر سے میں سویا نہیں نیندوں کے سفر میں
کب میرے تعاقب میں وہ خوشبُو نکل آئے

پیاس بھی ہم ہیں پیاس بجھانے والے بھی ہم

پیاس بھی ہم ہیں، پیاس بجھانے والے بھی ہم
تیر بھی ہم ہیں، تیر چلانے والے بھی ہم
جانے کیا تاریخ لکھے اپنے بارے میں
دار بھی ہم ہیں، دار پر آنے والے بھی ہم
موسم پر الزام، نہ قرض کوئی ناخن پر
زخم بھی ہم ہیں، زخم لگانے والے بھی ہم

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا
قطرۂ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہو گیا
خاک کی چادر میں جسم و جاں سمٹتے ہی نہیں
اور کچھ رنگِ زمیں بھی دھوپ جیسا ہو گیا
ایک اک کر کے مرے سب لفظ مٹی ہو گئے
اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہو گیا

زوال شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے

زوالِ شب ہے، ستاروں کو گرد ہونا ہے
پسِ نگاہ ابھی ایک غم کو رونا ہے
اب اس کے بعد یہی کارِ عمر ہے کہ ہمیں
پلک پلک میں تری یاد کو پرونا ہے
یہی کہ سلسلۂ نارسائی ختم نہ ہو
سو جس کو پا نہ سکے ہم، اسی کو کھونا ہے

جتنے بھی سخنور ہیں سبھی مہر بہ لب ہیں

جتنے بھی سخنور ہیں سبھی مہر بہ لب ہیں
اے دوست! تیرے شہر کے آداب عجب ہیں
بے رشتۂ زنجیر تیرا در ہے تو کیا ہے
ہم منتظرِ عدلِ جہانگیر ہی کب ہیں
اے محتسبِ شہر! نہیں تجھ سے شکایت
ہم خود ہی دل و جاں کی تباہی کا سبب ہیں

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں
تمہاری آنکھ کا احوال خواب پوچھتے ہیں
کہاں کہاں ہوئے روشن ہمارے بعد چراغ
ستارے دیدۂ تر سے حساب پوچھتے ہیں
وہ تشنہ لب بھی عجب ہیں جو موجِ صحرا سے
سراغِ حبس، مزاجِ سراب پوچھتے ہیں

Wednesday, 12 August 2015

تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں

فلمی گیت

تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں
پلکیں بِچھا دوں، ساری عمر بِتا دوں
تُو جو کہے تو تن من اپنا
تجھ پہ لٹا دوں ساری عمر بِتا دوں
تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجناں
پلکیں بچھا دوں ساری عمر بِتا دوں

خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرا دو

فلمی گیت

خاموش ہیں نظارے، اک بار مسکرا دو
کہتی ہیں یہ بہاریں ہنسنا ہمیں سِکھا دو
خاموش ہیں نظارے

سُونی پڑی رہیں گی یہ پربتوں کی راہیں
یونہی کُھلی رہیں گی ان وادیوں کی بانہیں
جب تک جُھکی یہ نظریں ہنس کے نہ تم اُٹھا دو
خاموش ہیں نظارے، اک بار مسکرا دو

تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں

فلمی گیت

تیرے بِنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں
تیرے بِنا یوں گھڑیاں بِیتیں جیسے صدیاں بِیت گئیں
تیرے بِنا یوں گھڑیاں بیتیں ۔۔۔۔۔۔۔

خود منزل کو ٹھکرایا ہے مجبوری کے سائے ہیں
تاریکی میں ہم نے اپنے دل کے داغ جلائے ہیں
ہار گئے دو پیار بھرے دل، ظالم رسمیں جیت گئیں
تیرے بِنا یوں گھڑیاں بیتیں ۔۔۔۔۔۔۔

دل ویراں ہے تیری یاد ہے تنہائی ہے

گیت/غزل

دل ویراں ہے، تیری یاد ہے، تنہائی ہے
زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے
مِرے محبوب زمانے میں کوئی تجھ سا کہاں
تیرے جانے سے میری جان پہ بن آئی ہے
ایسا اجڑا ہے امیدوں کا چمن تیرے بعد
پھول مرجھائے، بہاروں پہ خزاں چھائی ہے

Tuesday, 11 August 2015

نکلے تری دنیا کے ستم اور طرح کے

نکلے تِری دنیا کے سِتم اور طرح کے
درکار مِرے دل کو تھے غم اور طرح کے
تم اور طرح کے سہی، ہم اور طرح کے
ہو جائیں گے بس قول و قسم اور طرح کے
بت خانے کا منظر بخدا آج ہی دیکھا
تھے میرے تصوّر میں صنم اور طرح کے

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں

پائی نہ کوئی منزل پہنچیں نہ کہیں راہیں
بھٹکا کے رہیں مجھ کو آوارہ گزر گاہیں
آلامِ زمانہ سے چھوٹیں تو تجھے چاہیں
مصروفِ مشقت ہیں حسرت سے بھری بانہیں
صحرا ہی سے گزری تھیں کھوئی گئیں جو راہیں
بتلائیں گے یہ چشمے، یہ بَن یہ چراگاہیں

Monday, 10 August 2015

لطف وفا نہیں کہ وہ بیداد گر نہیں

لطفِ وفا نہیں کہ وہ بیداد گر نہیں
خاموش ہوں کہ میری فغاں بے اثر نہیں
ان کے بغیر تلخئ کام و دہن حرام
دردِ جگر ہے لذتِ درد، جگر نہیں
تم کیا گئے کہ سارا زمانہ چلا گیا
وہ رات دن نہیں، وہ شام و سحر نہیں

وہ ملے تو بے تکلف نہ ملے تو بے ارادہ

وہ ملے تو بے تکلف نہ ملے تو بے ارادہ
نہ طریقِ آشنائی نہ رسومِ جام و بادہ
تِری نیم کش نگاہیں، تِرا زیرِ لب تبسم
یونہی اک ادائے مستی یونہی اک فریبِ سادہ
وہ کچھ اس طرح سے آئے مجھے اس طرح سے دیکھا
مِری آرزو سے کم تر، مِری تاب سے زیادہ

پھر دھندلکا سا ہوا رات کے آثار گئے

پھر دھندلکا سا ہوا، رات کے آثار گئے
جام و مینا کو سنبھالے ہوئے میخوار گئے
شمعیں گل ہو گئیں، پروانے گئے، بزم اٹھی
میں ہی میں رہ گیا، سب ان کے طرفدار گئے
یہ عجب مے ہے، عجب نشہ، عجب محفل ہے
کہ جو مدہوش یہاں آئے تھے، ہُشیار گئے

ضدوں سمیت کبھی دل کو چھوڑنا ہو گا

ضدوں سمیت کبھی دل کو چھوڑنا ہو گا
یہ آئینہ کسی پتھر پہ توڑنا ہو گا
یہی نہیں کہ ہمیں توڑ کر گیا ہے کوئی
اسے بھی خود کو بہت دیر جوڑنا ہو گا
تُلی ہوئی بہت سرکشی پہ ہجر کی رُت
یہ رُت رہی تو کہیں سر ہی پھوڑنا ہو گا

چاندنی جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہو گا

چاندنی، جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہو گا
اب تِرا عکس فقط اپنی غزل میں ہو گا
جس سے منسوب ہے تقدیرِ دو عالم کا مزاج
وہ ستارہ بھی تِری زلف کے بَل میں ہو گا
اور اک سانس کو جینے کی تمنا کر لیں
ایک لمحہ تو ابھی دستِ اجل بھی ہو گا

جب کبھی خوبی قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں

جب کبھی خوبئ قسمت سے تجھے دیکھتے ہیں
آئینہ خانے کی حیرت سے تجھے دیکھتے ہیں
وہ جو پامالِ زمانہ ہیں تخت نشیں
دیکھ تو کیسی محبت سے تجھے دیکھتے ہیں
کاسۂ دِید میں بس ایک جھلک کا سِکہ
ہم فقیروں کی قناعت سے تجھے دیکھتے ہیں

صیاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے

صیاد تو امکانِ سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مِرے پر کاٹ رہا ہے
اے چادر منصب، تِرا شوق گل تازہ
شاعر کا تِرے دستِ ہنر کاٹ رہا ہے
جس دن سے شمار اپنا پنہ گیروں میں ٹھہرا
اس دن سے تو لگتا ہے کہ گھر کاٹ رہا ہے

Sunday, 9 August 2015

یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں

یقین برسوں کا، امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے
تمہارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں
کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خود پہ بوجھ میری جان کچھ دنوں کا ہوں

وقت جدائی آ جو گیا یار دوستو

وقتِ جدائی آ جو گیا یار دوستو
اتنا بھی اب کرو نہ مجھے پیار دوستو
غربت کے دن امید کی راتیں گزار کے
 ہم لوگ آ گئے ہیں یہ کس پار دوستو
میں نے پناہ لینے کا سوچا ہی تھا ابھی
سایہ اٹھا کے چل پڑی دیوار دوستو

پل دو پل ہے پھر یہ سونا مٹی کا

پل دو پل ہے پھر یہ سونا مٹی کا
کر دو مِرا تیار بچھونا، مٹی کا
اک ٹھوکر سے دونوں ٹوٹ کے دیکھتے ہیں
تُو ہے کانچ کا، میں ہوں کھلونا مٹی کا
تیرے شیش محل کی چھت بھی شیشے کی
میرے گھر کا کونا کونا مٹی کا

میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو ناممکن ہے

میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو ناممکن ہے
تُو میری پہلی محبت ہے، مِرا محسن ہے
میں اسے صبح نہ جانوں جو تِرے سنگ نہیں
میں اسے شام نہ مانوں کہ جو تِرے بِن ہے
کیسا منظر ہے تِرے ہِجر کے پس منظر کا
ریگِِ صحرا ہے رواں اور ہوا ساکن ہے

یہی جو تیرے مرے دل کی راجدھانی تھی

یہی جو تیرے مِرے دل کی راجدھانی تھی
یہیں کہیں پہ تِری اور مِری کہانی تھی
یہیں کہیں پہ عدو نے پڑاؤ ڈالا تھا
یہیں کہیں پہ محبت نے ہار مانی تھی
عجیب ساعتِ بے رنگ میں تُو بچھڑا تھا
کہ دل لہو تھا مِراِ اور نہ آنکھ پانی تھی

اتنا سناٹا ہے بستی میں کہ ڈر جائے گا

اتنا سناٹا ہے بستی میں کہ ڈر جائے گا
چاند نکلا بھی تو چپ چاپ نکل جائے گا
کیا خبر تھی، کہ ہوا تیز چلے گی اتنی
سارا صحرا میرے چہرے پہ بکھر جائے گا
ہم کسی موڑ پہ رک جائیں گے چلتے چلتے
راستہ ٹوٹے ہوئے پُل پہ ٹھہر جائے گا

دن کی بے درد تھکن چہرے پہ لے کر مت جا

دن کی بے درد تھکن چہرے پہ لے کر مت جا
بام و در جاگ رہے ہوں گے ابھی گھر مت جا
میرے پُرکھوں کی وراثت کا بھرم رہنے دے
تُو حویلی کو کھُلا دیکھ کے اندر مت جا
بُوند بھر درد سنبھلتا نہیں کم ظرفوں سے
رکھ کے تُو اپنی ہتھیلی پہ سمندر مت جا

Saturday, 8 August 2015

تیرے دل کی بات لکھوں تو تالی ہے

تیرے دل کی بات لکھوں تو تالی ہے
اپنے من کا حال کہوں تو گالی ہے
تیری شب میں روشن چاند ستارے ہیں
میرے دن کی صورت کیسی کالی ہے
تیرے در پہ خوشبو پہرہ دیتی ہے
میرے گھر کے باہر گندی نالی ہے

اس ترازو سے مجھے خون کی بو آتی ہے

اس ترازو سے مجھے خون کی بُو آتی ہے
یک زباں ہو کے مرے پیارے وطن کے باسی
جس کے جھکتے ہوئے پلڑے کو خدا کہتے ہیں
ساری تعزیریں یتیموں پہ لگانے والی
تختۂ دار پہ مہروں کو چڑھانے والی
سارے شیطانوں کو مسند پہ بٹھانے والی

جو میری آنکھوں نے دیکھا لوگو اگر بتا دوں تو کیا کرو گے

جو میری آنکھوں نے دیکھا لوگو! اگر بتا دوں تو کیا کرو گے
جو سن رہے ہو وہ کچھ نہیں ہے میں سب سنا دوں تو کیا کرو گے
یہ ہڈی بوٹی پہ پلنے والے تمہیں بھی جاں سے عزیز تر ہیں
میں ان کے گورے نسب کا شجرہ کہیں ملا دوں تو کیا کرو گے
یتیم دھرتی کے قاتلوں سے کوئی نہیں جو قصاص مانگے
میں اپنے بچوں کو درس دے کر اگر لگا دوں تو کیا کرو گے

کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک

کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک
تِرے وعدے پہ بیٹھے کر رہے ہیں انتظار اب تک
خدا معلوم، کیوں لوٹی نہیں جا کر بہار اب تک
چمن والے چمن کے واسطے ہیں بے قرار اب تک
برا گلچیں کو کیوں کہئے برے ہیں خود چمن والے
بھلے ہوتے تو کیا منہ دیکھتی رہتی بہار اب تک

Wednesday, 5 August 2015

خموشی کی زبان میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے

خموشی کی زبان میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے
ہمیں اشکوں سے شرحِ آرزو کرنی بھی آتی ہے
فقط ہاتھوں کو مہندی سے رچانا ہی نہیں آتا
انہیں ہر آرزو میری لہو کرنی بھی آتی ہے
نہیں دشوار کوئی، منزلِ مقصود کا ملنا
سفر درپیش ہو تو جستجو کرنی بھی آتی ہے

Tuesday, 4 August 2015

گرفتہ دل عندلیب گھائل گلاب دیکھے

گرفتہ دل عندلیب، گھائل گلاب دیکھے
محبتوں نے سبھی رُتوں میں عذاب دیکھے
وہ دن بھی آئے صلیب گر بھی صلیب پر ہوں
یہ شہر اک روز پھر سے یومِ حساب دیکھے
یہ صبحِ کاذب تو رات سے بھی طویل تر ہے
کہ جیسے صدیاں گزر گئیں آفتاب دیکھے

جو خمار ہے تیرے عشق کا اسے موت کیسے فنا کرے

جو خمار ہے تیرے عشق کا اسے موت کیسے فنا کرے
وہ تو پہلے موت سے مر گیا تیرے عشق میں جو جیا کرے
مجھے گدڑی والے پسند ہیں مجھے عشق دامنِ چاک سے
کوئی اور ہے نہیں میں نہیں وہ جو دامن اپنا سیا کرے
اے ہوائے کوچۂ یار سن! اسے کہنا تیری ہی ہے لگن
تیرے ہجر میں وہ مرا پڑا ترے وصل میں جو جیا کرے
میرے ساقیا میرے دلربا میں نے پی ہے مے تیرے عشق کی
جو بھلانا چاہے غم جہاں تیرے مے کدے سے پیا کرے
میرے روز و شب تیری چاہ میں یونہی بے مزہ سے گزر رہے
مجھے وصل کی ہے تڑپ اعجازؔ کوئی زندگی سے جدا کرے

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے وہ خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے وہ خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہی درختوں سے اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے

کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا

کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا
جس نے شہر کی دیواروں پر پہلا نعرا لکھا تھا
لاش کے ننھے ہاتھ میں بستہ اور اک کھٹی گولی تھی
خون میں ڈوبی اک تختی پر غین غبارا لکھا تھا
آخر ہم ہی مجرم ٹھہرے جانے کن کن جرموں کے
فردِ عمل تھی جانے کس کی، نام ہمارا لکھا تھا

عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا

عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا
جو دِیپ تھا نگاہ کی پرچھائیوں میں تھا
وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا
دل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا
اک لمحۂ فسوں نے جلایا تھا جو دِیا
پھر عمر بھر خیال کی رعنائیوں میں تھا

حیراں ہوں کیوں دیر پشیماں سا لگے ہے

حیراں ہوں کیوں دیر پشیماں سا لگے ہے
سایہ جو مِرے قد سے گریزاں سا لگے ہے
اک وحشتِ جاں ہے کبھی صحرا کبھی زنداں
اک عالمِ دل ہے کہ بہاراں سا لگے ہے
پندار نے ہر بار نیا دِیپ🪔 جلایا
جو چوٹ بھی کھائی ہے وہ احساں سا لگے ہے

اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا

اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا
کسی منڈیر پہ جب تک چراغ جلتا تھا
وہ کتنی دور رہا، فیصلہ بھی اس کا تھا
مجھے تو قرب کے احساس نے سنبھالا تھا
یہی غبارِ شب و روز کا کمال بھی ہے
جو آنکھ دیکھ نہ پائی وہ دل نے دیکھا تھا

مطلوب زندگی کو ابھی امتحاں نہیں

مطلوب زندگی کو ابھی امتحاں نہیں
اب تک متاعِ درد سے دل بدگماں نہیں
جو برگِ خشک تند ہواؤں کی زد پہ تھا
وہ آشنائے راز کہاں ہے، کہاں نہیں
دیکھو تو ہر جبِیں پہ ہے اک آشنا سی لَو
سوچو تو آس پاس کوئی رازداں نہیں

پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے

پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
آ کے بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے
کتنی ویران گزرگاہوں سے
سلسلے خواب کے ملتے ہوں گے
آس ٹوٹے گی، نہ جی سنبھلے گا
چاکِ دل بھی کہیں سِلتے ہوں گے

دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے

دل بجھنے لگا آتشِ رخسار کے ہوتے
تنہا نظر آتے ہیں غمِ  یار کے ہوتے
کیوں بدلے ہوئے ہیں نگہِ ناز کے انداز
اپنوں پہ بھی اٹھ جاتی ہے اغیار کے ہوتے
ویراں ہے نظر میری تِرے رخ کے مقابل
آوارہ ہیں غم کوچۂ دلدار کے ہوتے

چھلک رہی ہے مئے ناب تشنگی کے لئے

چھلک رہی ہے مۓ ناب تشنگی کے لیے
سنور رہی ہے تیری بزم، برہمی کے لیے
نہیں نہیں، ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
تجھے بھی بھول گئے ہم تِری خوشی کے لیے
جہانِ نو کا تصور، حیاتِ نو کا خیال
بڑے فریب دیئے تم نے بندگی کے لیے

بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں

بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں
دیکھو خالی دامن والے اب بھی ہیں
دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے ہیں
دیکھو ان کے منہ پہ تالے اب بھی ہیں
دیکھو ان آنکھوں کو جنہوں نے سب دیکھا
دیکھو ان پر خوف کے جالے اب بھی ہیں

جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو

جو دل نے کہی، لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو
اب محفلِ یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو
پھولوں سے ہوا بھی کبھی گھبرائی ہے دیکھو
غنچوں سے بھی شبنم کبھی کترائی ہے دیکھو
اب ذوقِ جنوں، وجہِ طلب ٹھہر گیا ہے
اب عرضِ وفا باعثِ رسوائی ہے دیکھو

Monday, 3 August 2015

دل سا نگار خانہ کہاں دوسرا بنے

دل سا نگار خانہ کہاں دوسرا بنے
جس میں کہ جو بھی نقش بنے یار کا بنے
ایسی جمالِ یار کی قدرت کہ کیا کہوں
دل آپ منتظر ہے کہ مِٹ جائے یا بنے
کچھ بھی نہیں کیا تو ہیں چرچے اس قدر
کچھ کر گیا تو جانیے کیا ماجرا بنے

فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو

فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے,، جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارہ

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
میں ہار گیا جنگ، مگر، دل نہیں ہارا
روشن ہے مِری عمر کے تاریک چمن میں
اس کنجِ ملاقات میں جو وقت گزارا
اپنے لیے تجویز کی، شمشیرِ برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا

فرات فاصلہ و دجلہ دعا سے ادھر

فراتِ فاصلہ و دجلۂ دعا سے ادھر
کوئی پکارتا ہے دشتِ نینوا سے ادھر
کسی کی نیم نگاہی کا جل رہا ہے چراغ
نگار خانۂ آغاز و انتہا سے ادھر
میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے
بلا کا رنگ تھا رنگینئ قبا سے ادھر

Saturday, 1 August 2015

رکھا ہے پاؤں یار نے دل کے مکان میں

رکھا ہے پاؤں یار نے دل کے مکان میں
لو آج میری جان بھی آئی ہے جان میں
اک دن ترا یہ ہجر مکمل کروں گا میں
یہ عمر پڑ رہی ہے یونہی درمیان میں
لیجے حضور ختم ہوئی داستانِ عشق
میں آخری چراغ تھا اس خاندان میں

حیات کیسے کٹے گی ہنسی خوشی باقی

حیات کیسے کٹے گی ہنسی خوشی باقی
نہ دوستی ہے سلامت، نہ دشمنی باقی
پتہ چلا کہ کسی اور کے وجود سے تھی
بجھا چراغ، مگر روشنی رہی باقی
تمام شہر تو مسمار ہو چکا کب کا
مگر فقیر کی اب بھی ہے جھونپڑی باقی

میں نے یہ کب کہا تھا کہ سارا ادھیڑ دے

میں نے یہ کب کہا تھا کہ سارا ادھیڑ دے
جتنی بُنت خراب ہے، اتنا ادھیڑ دے
ان کا نصیب بس وہی صحرا کی خاک ہے
جن کو فراقِ یار کا لمحہ ادھیڑ دے
ممکن ہے اب کی بار میں آدھا دکھائی دوں
ممکن ہے تیرا ہجر یہ چہرہ ادھیڑ دے

روٹھتے ہی منا لیا خود کو

روٹھتے ہی منا لیا خود کو
کتنا خود سر بنا لیا خود کو
غم مسلسل خراج مانگتا تھا
اس کا ایندھن بنا لیا خود کو
ہائے دنیا! تِرے تعاقب میں
زندگی نےتھکا لیا خود کو