Sunday 9 August 2015

وقت جدائی آ جو گیا یار دوستو

وقتِ جدائی آ جو گیا یار دوستو
اتنا بھی اب کرو نہ مجھے پیار دوستو
غربت کے دن امید کی راتیں گزار کے
 ہم لوگ آ گئے ہیں یہ کس پار دوستو
میں نے پناہ لینے کا سوچا ہی تھا ابھی
سایہ اٹھا کے چل پڑی دیوار دوستو
چپکے سے جنگ جیت لی چاہت کی اس دفعہ
سر پر لٹکتی رہ گئی تلوار دوستو
یہ کون سا جہان ہے، مخلوق کون سی
چاروں طرف ہے حلقۂ اغیار دوستو
اب کیا تمہیں بتاؤں کہ وہ صبح کیا ہوئی
پڑھ لینا خود ہی شام کا اخبار دوستو
کوئی گلہ نہیں ہے کہاں لے کے آ گئی
کشتی بھنور میں خود مِری پتوار دوستو
اک تار میں پرونا کہ کر دینا تار تار
لکھتا رہا ہوں میں جو لگاتار دوستو
کہہ دو عدو سے جشن منانے نہیں ابھی
مانی نہیں ہے میں نے ابھی ہار دوستو
نسبت نہیں رضی سے طفیل ابنِ گل سے صرف
اختر شمار بھی تو ہے دلدار دوستو
ناسکؔ کو درد ہونے لگا ہے سو معذرت
اب کل پہ ٹالتا ہوں سمجھدار دوستو

اطہر ناسک

No comments:

Post a Comment