Friday, 21 August 2015

اے تو کہ روز و شب کو مہ و آفتاب دے

اے تُو کہ روز و شب کو مہ و آفتاب دے
برسوں سے جاگتی ہوئی آنکھوں کو کوئی خواب دے
میں وہ نقش گر تِرے ارض و سما کا ہوں
تُو وہ کہ مجھ کو دونوں جہاں کے عذاب دے
میں نے تو تن بدن کا لہو نذر کر دیا
اے شہر یار! تُو بھی تو اپنا حساب دے
میں سنگ ہوں کہ پھول، ودیعت ہے یار کی
 لازم نہیں کہ گلاب کے بدلے گلاب دے
اہلِ ہنر کے ہاتھ قلم کر دیئے گئے
 اب کون پتھروں کو نگینوں کی آب دے
اب جو بھی حال کوئے ستمگر میں ہو فرازؔ
اب جو بھی بد دعا دل خانہ خراب دے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment